وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً ۖ وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ
اور اگر تیرا رب چاہتا ، تو سب لوگوں کو ایک راہ پر کردیتا ، اور وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے (ف ١) ۔
اختلاف کی اصل وجہ: خیر و شر میں سے کوئی ایک راہ انتخاب کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ اگر یہ اختیار انسان سے چھین لیا جائے تو اختلاف کا ہونا ممکن نہیں رہتا۔ نیز اگر یہ آزادی انسان سے چھین لی جائے تو انسان کی تخلیق کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ انسان کو خیر و شر کی راہیں سمجھا دی گئیں ہیں۔ پھر انبیاء بھیجے اور کتابیں نازل فرمائیں۔ لیکن تھوڑے ہی لوگ تھے جنھوں نے اس آزادی و اختیار کا درست استعمال کیا زیادہ لوگوں نے گمراہی کی راہ اختیار کرکے اپنے آپ کو جہنم کا اہل ثابت کیا۔ اللہ کی قدرت کسی کام سے عاجز نہیں وہ چاہے تو سب کو اسلام اور کفر پر جمع کر دے۔ اختیار دے کر امتحان مقصود ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہودیوں کے اکہتر گروہ ہوئے، نصاری بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گئے اس اُمت کے تہتر فرقے ہوجائیں گے۔ سب جہنمی ہیں سوائے ایک جماعت کے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ وہ کون لوگ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: جو اس پر ہوں جس پر میں ہوں او رمیرے اصحاب رضی اللہ عنہم (مستدرک حاکم: ۱/ ۶، ح: ۱۰)