سورة ھود - آیت 62

قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَٰذَا ۖ أَتَنْهَانَا أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کہا اے صالح (علیہ السلام) اس سے پہلے تو ہم میں تجھ سے امیدیں کی جاتی تھیں ، کیا تو ہمیں ان کی عبادت سے جنہیں ہمارے بڑے پوجتے تھے ، منع کرتا ہے ‘ اور جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے (ف ٣) ۔ اس میں ہمیں ایسا شک ہے کہ دل نہیں ٹھہرتا ،

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

پیغمبر چونکہ اپنی قوم میں اخلاق و کردار، دیانت و امانت میں ممتاز ہوتا ہے۔ اس لیے قوم کو اس سے اچھی اُمیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ اسی لحاظ سے صالح علیہ السلام کی قوم نے بھی ان سے کہا کہ ہم نے تمھیں عقلمند ہونہار اور دیانت دار سمجھ کر اپنی بہت سی توقعات تم سے وابستہ کر رکھی تھیں کہ تم اپنے باپ دادا کا نام روشن کرو گے، تم نے تو الٹا باپ دادا کے دین سے سرکشی اختیار کر لی۔ اور ہمیں بھی باپ دادا کے طریقے سے ہٹانے لگے ہمیں تو تمھاری اس نئی راہبری میں بڑا شک شبہ ہے۔