أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ قُلْ أَأَنتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ ۗ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم (علیہ السلام) اور اسمعیل (علیہ السلام) اور اسحق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) اور اس کی اولاد یہودی تھے یا نصاری ، تو کہہ کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ ؟ اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہے جس نے اس گواہی کو جو خدا کی طرف سے اس کے پاس تھی چھپایا اور خدا تمہارے کاموں سے بےخبر نہیں ہے (ف ٢)
اس آیت کا مفہوم سمجھنے کے لیے یہ جان لینا ضروری ہے کہ یہودیت اپنے موجودہ نظریات و عقائد کے مطابق تیسری اور چوتھی صدی قبل مسیح وجود میں آئی تھی اور عیسائیت اپنے نظریات و عقائد کے مطابق حضرت عیسیٰ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے مابعد کی پیداوار ہے اور ان دو قوموں کے عالم خوب جانتے تھے کہ حضرت ابراہیم ، اسماعیل ، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد یوسف علیہ السلام بھی اس قسم کی یہودیت اور عیسائیت کی پیدائش سے بہت پہلے وفات پاچکے تھے ۔ مگر یہودی علماء نے عوام کے ذہن اس بات پر پختہ کردیے تھے کہ یہ تمام انبیاء یہودی تھے اور نصاریٰ کے قول کے مطابق یہ سب عیسائی تھے۔ اس آیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہودی ہوں یا عیسائی یا مسلمان نجات اخروی کے لیے انبیاء صالحین پر بھروسہ کرنا عبث یعنی غلط ہے۔ تم اپنے اعمال کے جواب کے خود ذمہ دار ہو اور نیك و بد عمل كی جزا سزا خود ہی بھگتو گے۔