فَمَا آمَنَ لِمُوسَىٰ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِ عَلَىٰ خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ ۚ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ
پھر موسیٰ (علیہ السلام) پر کوئی ایمان نہ لایا ، مگر اس کی قوم کی کچھ ذریت ایمان لائی ، سو وہ بھی اپنے سرداروں اور فرعون سے ڈرتے ہوئے کہ انہیں فتنہ میں نہ ڈالیں ، کیونکہ فرعون ملک پر چڑھ رہا تھا اور (ظلم کیلئے) اس نے ہاتھ بالکل چھوڑ رکھتے تھے (ف ١) ۔
ذُرِّیَّۃٌ: لفظ ذریت کے لغوی معنی اولاد ہے اور یہاں ذریت سے مراد بنی اسرائیل کی نواجون نسل ہے ان نوجوانوں میں سے بھی چند آدمیوں نے جرأت و ہمت کر کرے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کا اعلان کر دیا۔ جبکہ بوڑھے لوگ فرعون کے مظالم کی وجہ سے دل میں ایمان لانے کے باوجود اس کا اظہار کرنے میں اپنی موت سمجھتے تھے۔ فرعون کے مظالم نے انھیں کمزور اور پست ہمت کر دیا تھا ۔ اور جادو گروں کے ایمان لانے کے بعد بنی اسرائیل کے یہ چند نوجوان اتنے دلیر نکلے کہ انھوں نے پیش آنے والے مصائب و مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا تہیہ کر لیا۔ اس طرح موسیٰ علیہ السلام کو کچھ تقویت حاصل ہو گئی اور آپ نے نومسلموں کو ثابت قدمی اور استقلال کے ساتھ اپنا ساتھ دینے کی تربیت شروع کر دی اور سمجھایا کہ اگر تم اللہ کے فرمانبردار بن کر رہے اور اسی پر بھروسہ کیا تو فرعون تمھار ا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا۔