سورة یونس - آیت 46

وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللَّهُ شَهِيدٌ عَلَىٰ مَا يَفْعَلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جو وعدہ (عذاب) ہم نے اہل مکہ سے کیا ہے اگر ان میں سے کوئی ہم (تیری حیات میں) تجھے دکھلائیں گے یاہم تیری موت بھیجیں گے ، تو انہیں ہماری طرف آنا ہے پھر اللہ ان کے کاموں کا گواہ ہے (آیت ١) ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ان کفار کے بارے میں جو وعدہ کیے جارہے ہیں کہ اگر انھوں نے کفر و شرک پر اصرار جاری رکھا تو ان پر بھی اسی طرح عذاب الٰہی آ سکتا ہے جس طرح پچھلی قوموں پر آیا۔ اگر آپ کی زندگی میں ہم ان کفار پر کوئی عذاب اُتاریں یا آپ کو ان عذابوں کے اُتارنے سے پہلے ہی اپنے پاس بلا لیں تب بھی کوئی بات نہیں۔ ان کافروں کابالآخر ہمارے ہی پاس آنا ہے۔ ان کے سارے اعمال و افعال کی ہمیں اطلاع ہے۔ وہاں یہ ہمارے عذاب سے کس طرح بچ سکیں گے؟ یعنی دنیا میں تو ہماری مخصوص حکمت کی وجہ سے ممکن ہے کہ عذاب سے بچ جائیں لیکن آخرت میں تو ان کے لیے ہمارے عذاب سے بچنا ممکن ہی نہیں ہوگا کیونکہ قیامت کے وقوع کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ وہاں اطاعت گزاروں کو ان کی اطاعت کا صلہ اور نافرمانوں کو ان کی نافرمانی کی سزادی جائے۔ (تیسیر القرآن)