سورة البقرة - آیت 130

وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بے وقوف کے سوا کون ہے جو ابراہیم کے مذہب سے منہ موڑے گا (ف ٢) ہم نے اس کو دنیا میں برگزیدہ کیا اور وہ بیشک آخرت میں نیکوں سے ہے ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

دین کا مطلب اللہ تعالیٰ کی مکمل حاکمیت اور اپنی مکمل عبودیت کو تسلیم کرلینا ہے۔ حضرت ابراہیم نے اپنے طرز عمل و فکر کو مکمل طور پر اللہ کی م رضی کے تابع بنالیا تھا اور (۱) آپ آزمائشوں پر پورا اترنے والے۔ (۲) سب لوگوں کے پیشوا امام۔ (۳) اللہ تعالیٰ کے گھر کو پاک صاف رکھنے والے۔ (۴) اللہ تعالیٰ سے اپنی ذات۔ اولاد اور اپنی قوم كے لیے دنیا و آخرت کی بھلائیوں کی دعائیں کرنے والے۔ (۵) اللہ تعالیٰ کا گھر بنانے والے یکسو اور حنیف ۔ (۶) صالح مسلم۔ (۷) اپنی اولاد کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نصیحت کرنے والے۔ (۸) اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والے تھے کبھی رخ کسی اور طرف نہیں ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ (۹) وہ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں منتخب کرلیا برگزیدہ کیاآپ جہاں نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے اُسے مستقل جائے نماز بنانے کا حکم ہوا۔ اب کوئی بے وقوف شخص ہی ایسی پسندیدہ روش سے منہ موڑ سکتا ہے۔