سورة التوبہ - آیت 123

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مومنو ! اپنے نزدیک کے کافروں سے لڑنے کو جاؤ ، اور ضرور ہے ، کہ وہ تم میں سختی دیکھیں ، اور جانور کہ اللہ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے (ف ٢) ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جنگی ضابطوں کا خیال رکھنا ضروری ہے: اس آیت میں کافروں سے لڑنے کا ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے۔ کہ ( الاول فالا ول اور الا قرب فالاقرب) کے مطابق کافروں سے جہاد کرنا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے جزیرہ عرب کے مشرکین سے قتال کیا، جب ان سے فارغ ہوگئے اور اللہ نے مکہ، طائف، یمن، یمامہ، ہجر، خیبر، حضر موت وغیرہ اقوام پر مسلمانوں کو غلبہ عطا فرمادیا اور عرب کے سارے قبائل فوج در فوج اسلام میں داخل ہوگئے تو پھر اہل کتاب سے قتال کاا ٓغاز فرمایا اور ۹ ہجری میں رومیوں سے قتال کے لیے تبوک تشریف لے گئے جو جزیرہ عرب سے قریب ہے ۔ اسی ضابطہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حضرات صحابہ کرام نے روم کے عیسائیوں اور ایران کے مجوسیوں سے جنگ کی۔ کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آنا چاہیے: مطلب کافروں کے لیے مسلمانوں کے دلوں میں نرمی نہیں سختی ہونی چاہیے۔ لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ جو احکام اور ضابطے اللہ اور اسکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں دوران جنگ کے لیے دے رکھے ہیں ان کو بھول جاؤ مثلاً کافروں کی عورتوں، بچوں، راہب قسم کے لوگوں، یا میدان جنگ میں عملاً شریک نہ ہونے والوں کو قتل نہ کیا جائے کسی لاش کا مثلہ نہ بنایا جائے۔ معاہدہ کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ دشمن کے درختوں، کھیتوں اور چوپایوں کو برباد نہ کیا جائے اور ایسے تمام امور میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور اللہ ایسے ڈرنے والوں ہی کا ساتھ دیتا ہے اور انکی مدد کرتا ہے۔