سورة التوبہ - آیت 94

يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ ۚ قُل لَّا تَعْتَذِرُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ ۚ وَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جب تم (تبوک سے) ان کی طرف واپس جاؤ گے تو تمہارے سامنے عذر کریں گے ، تو کہہ عذر نہ کرو ، ہم تمہاری بات کا ہرگز یقین نہیں کریں گے ، ہمیں اللہ تمہاری خبریں دے چکا ہے اور اب اللہ اور اس کا رسول تمہارے کام دیکھے گا ، پھر تم اس کی طرف جاؤ گے جو ظاہر اور باطن سے خبردار ہے ، سو وہ تمہیں بتائے گا جو کام تم کر رہے تھے (ف ١) ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یہاں پھر ان منافقین کا تذکرہ ہورہا ہے۔ جنہوں نے غزوہ تبوک پر روانگی سے پہلے ہی حیلے بہانے بناکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت طلب کرلی تھی اور بہت سے ایسے تھے جو رخصت کے بغیر ہی مدینہ میں رہ گئے تھے۔اب اس انتظار میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئیں تو آپ سے معذرت کرکے آپ کی نظروں میں اپنے آپ کو سچا اور وفادار ثابت کرلیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تم ان کے پاس آؤ گے تو یہ عذر پیش کریں گے، تم ان سے کہہ دو کہ ہمارے سامنے عذر پیش کرنے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے اصل حالات سے ہمیں باخبر کردیا ہے اب تمہارے عذروں کی حقیقت مستقبل قریب میں مزید واضح ہوجائے گی۔ تمہارا عمل جسے اللہ تعالیٰ بھی دیکھ رہا ہے اور رسول اللہ کی نظر بھی ان پر ہے۔اگر تم نے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کو فریب دینے کی کوشش کی تو بالآخر ایک وقت آئے گا ہی جب تم اسکی بارگاہ میں حاضر کیے جاؤ گے جو ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے اُسے تم دھوکا نہیں دے سکتے وہ تمہارا سارا کچا چھٹا کھول کر تمہارے سامنے رکھ دے گا۔