سورة التوبہ - آیت 49

وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ ائْذَن لِّي وَلَا تَفْتِنِّي ۚ أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا ۗ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور ان میں وہ شخص ہے جو کہتا ہے کہ مجھے رخصت دے ‘ اور مجھے فتنہ میں نہ ڈال سنتا ہے ‘ وہ آپ ہی فتنہ میں پڑے ہیں اور دوزخ کافروں کو گھیر رہی ہے (ف ١) ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جد بن قیس کا عذر: مجھے فتنہ میں نہ ڈالیے: اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اگر آپ مجھے اجازت نہیں دیں گے تو مجھے بغیر اجازت رکنے پر سخت گناہ ہوگا، اس اعتبار سے ’’فتنہ‘‘ گناہ کے معنی میں ہوگا یعنی مجھے گناہ میں نہ ڈالیے۔ دوسرا مطلب فتنے کا ہلاکت ہے یعنی مجھے ساتھ لے جاکر ہلاکت میں نہ ڈالیں، کہا جاتا ہے کہ جدبن قیس نے عرض کیا کہ مجھے ساتھ نہ لے جائیں اگرچہ میری کئی بیویاں ہیں لیکن روم کی عورتوں کو دیکھ کر میں صبر نہ کر سکوں گا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رخ پھیر لیا اور اجازت دے دی، بعد میں یہ آیت نازل ہوئی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’فتنے میں تو وہ گرچکے ہیں۔‘‘(تفسیر طبری: ۱۴/ ۲۸۷) یعنی جہاد سے پیچھے رہنا اور اس سے گریز کرنا، بجائے خود ایک فتنہ اور سخت گناہ کا کام ہے جس میں یہ ملوث ہیں ہی اور مرنے کے بعد جہنم ان کو گھیرنے والی ہے جس سے فرار کا کوئی راستہ ان کے لیے نہیں ہوگا۔