سورة التوبہ - آیت 42

لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلَٰكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ ۚ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اگر کچھ مال نزدیک ہوتا ، اور سفر بد کا ہوتا ، تو ضرور تیرے ساتھ چلتے ، لیکن مسافت بعید نظر آتی ہے ، اور اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم چل سکتے ، تو ضرور تمہارے ساتھ نکلتے (جھوٹی قسموں سے) اپنی جانیں ہلاک کرتے ہیں ‘ اور خدا جانتا ہے ، کہ وہ جھوٹے ہیں (ف ١) ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

منافقوں کے عذر: یہاں سے ان لوگوں کا بیان شروع ہورہا ہے۔ جنھوں نے عذر معذرت کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لی تھی۔ حالانکہ ان کے پاس حقیقت میں کوئی عذر نہ تھا۔ اگر تھوڑی سی محنت کے بعد منافقوں کو مال غنیمت ہاتھ آجانے کی توقع ہوتی اور سفر بھی اتنا طویل اور مشقت والا نہ ہوتا تو یہ منافق آپکے ساتھ نکلنے کو تیار ہوتے۔ شدید گرمی، سواریوں کی کمی، دبدبے والی حکومت سے مقابلہ جہاں فتح کی بجائے ناکامی کے آثار زیادہ دکھائی دیتے ہیں ایسی صورت میں یہ آپکا ساتھ کیسے دے سکتے ہیں۔ اب یہ قسمیں ہی کھائیں گے اور اُدھر اُدھر کی باتیں عذر کے طور پر پیش کریں گے اللہ فرماتا ہے کہ ان کے جھوٹ کا مجھے علم ہے انھوں نے تو اپنے آپ کو غارت کرلیا ہے۔