سورة التوبہ - آیت 1

بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(مسلمانو ! ) جن مشرکوں سے تم نے عہد باندھا تھا ، ان کو اللہ اور رسول سے قطعی بیزاری (یعنی جواب) ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

سورہ توبہ کے آغاز میں بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ تسمیہ سیدنا براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سب سے آخر میں سورۂ براءت نازل ہوئی۔ (بخاری: ۴۶۵۴، مسلم: ۱۱/ ۱۶۱۸) یہ سورت ۹ ہجری میں نازل ہوئی اسکا نام سورت براءت بھی ہے دونوں کے مضامین ملتے جلتے ہیں، لہٰذا ان کو یکجا کردیا گیاہے اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں لکھی جاتی جوکہ دوسورتوں کے الگ الگ ہونے کی علامت ہے۔ نہ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی پڑھی۔ اس سورۃ میں اُمت مسلمہ اور دوسری اقوام کے بارے میں آخری قوانین ہیں۔ انصار،اہل بدر، جہاد سے پیچھے ہٹنے والے، بیعت رضوان، اور وہ مسلمان جن کی جڑیں کاٹنے کے لیے مشرکین تیار رہتے تھے اسلامی تحریک کے مختلف مراحل اور اقدامات بتائے گئے ہیں ۔ پہلا حصہ: مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات کی ضابطہ بندی ہے مسلم معاشرہ اور کافروں میں فرق، تعلقات کے اسباب، نظریاتی بنیادیں، ان کا تذکرہ ہے۔ دوسرا حصہ: اسلامی معاشرہ، اہل کتاب کے تعلقات کا تذکرہ ہے۔ اللہ کے فیصلوں کا تذکرہ ہے۔ اسلام کی مستقل حیثیت کو بیان کیا گیا ہے۔ خاص بات مشرکین اور مسلمان لوگوں میں پیدا ہونیوالے خلجان کو دور کرنے والاہے۔تیسرا حصہ: سست لوگوں کا تذکرہ ہے۔ جن کو جہاد کی دعوت دی جاتی تھی، اپنے آپ کو بوجھل سمجھتے تھے منافق نہیں تھے۔ چوتھا حصہ: منافقین کی اسلامی معاشرے کے خلاف کاروائیاں، تعصبات اور ان کے حیلوں کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ پانچواں حصہ: مسلمانوں کے مختلف طبقات، انصار، مہاجرین، السابقون، اولون کا تذکرہ ہے۔ چھٹا حصہ: بیعت جہاد کی بات اور جہاد فی سبیل اللہ کے مقاصد۔ ساتواں حصہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے مقصد کو بیان کیا گیا ہے۔ رسالت کے مقصد کو واضح کرنیوالی ہے۔ (اساتذہ کے لیکچر سے ماخوذ) مشرکین سے اعلان برآءت: اس سورت کا ابتدائی حصہ اس وقت اترا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھے۔ ۹ ہجری کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حج کے لیے بھیجا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس قافلہ کا امیر مقرر کیا، ابھی تک مشرکوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی پابندی عائد نہ کی گئی تھی۔ لہٰذا اس حج میں مشرکین بھی شریک تھے جو بیت اللہ کا طواف ننگے ہوکر کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مکہ روانہ فرمایا کہ مسلمانوں کو احکام حج سکھائیں اور مشرکوں میں اعلان کردیں کہ وہ آئندہ سال سے حج کو نہ آئیں اور سورۃ براءت کا بھی عام لوگوں میں اعلان کردیں، ان آیات کے نزول اور اعلان کی اہمیت کے پیش نظر آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی پیچھے بھیج دیا تاکہ قریبی رشتہ داری کی وجہ سے مشرکوں کی نگاہ میں آپ ہی کوقائم مقام سمجھا جاسکے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس حج میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دسویں تاریخ کو دوسرے منادی کرنے والوں کے ساتھ مجھے بھی بھیجا تاکہ یہ منادی کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی ننگا ہوکر طواف ہی کرے۔ حمید بن عبدالرحمٰن ایک راوی کہتے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو روانہ کرنے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی روانہ کیا اور انھیں بھی حکم دیا کہ سورۃ براءت کافروں کو سنادیں۔ ابوہریرہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ہمارے ساتھ منیٰ میں براءت کی منادی کردی اور کہا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور نہ کوئی ننگا ہوکر بیت اللہ کا طواف کرے۔ (بخاری: ۳۱۷۷)