سورة الانفال - آیت 37

لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَىٰ بَعْضٍ فَيَرْكُمَهُ جَمِيعًا فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تاکہ اللہ ناپاک اور پاک میں فرق کرے ، اور ناپاک (یعنی کفار) کو ایک کو ایک پر رکھ کے سب کو ڈھیر لگائے پھر اس ڈھیر کو دوزخ میں ڈالے یہی لوگ زبان کار ہیں ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

پاک کو نا پاک سے الگ کر دے گا : یہ علیحدگی یا تو آخرت میں ہوگی کہ اہل سعادت کو گنہگا روں سے الگ کردیا جائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ امْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ﴾ (یٰٓس: ۵۹) ’’اے گناہ گارو آج الگ ہو جاؤ۔‘‘ یعنی نیک لوگوں سے الگ ہو جاؤ اور مجرموں یعنی کافروں، مشرکوں اور نافرمانوں کو اِکٹھا کر کے سب کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ یا پھر اس آیت کا تعلق دنیا سے ہے یعنی کا فر جومال اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے خرچ کر رہے ہیں، ہم ان کو ایسا کرنے کا موقع دیں گے تاکہ اسطرح اللہ تعالیٰ خبیث کو طیب سے، کافر کو مومن سے اور منا فق کو مخلص سے علیحد ہ کر دے، یعنی کفار کے ذریعے ہم تمہاری آزمائش کریں گے وہ تم سے لڑیں گے اور ہم انھیں ان کے مال بھی لڑائی پر خرچ کرنے کی قدرت دیں گے، تاکہ خبیث طیب سے ممتاز ہو جائے،پھر وہ خبیث کو ایک دوسرے سے ملا دے گا، یعنی سب کو جمع کر دے گا۔ (ابن کثیر: ۲/ ۴۸۹)