سورة الانفال - آیت 15

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مومنو ! جب تم میدان جنگ میں کافروں کے مقابل ہو ، تو ان کو ہرگز پشت نہ دو ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جنگ سے منہ موڑ نا کبیرہ گناہ ہے۔ جہاد کے میدان میں جو مسلمان بھی بھاگ کھڑا ہوا اسکی سزا اللہ کے ہاں جہنم کی آگ ہے، جنگ کی پسپائی کی کئی صورتیں ہیں مثلاً پوری فوج کی جنگی پالیسی یہ ہو کہ اس مقام سے ہٹ کر فلاں مقام سے حملہ کرنا زیادہ سود مند ہو گا،یا کوئی فوجی دستہ وہاں سے ہٹ کراپنے مرکز سے جا ملنا چاہتا ہو یا کوئی شخص پینترا بدلنے کی غرض سے پیچھے ہٹ آیا ہو تو ایسی سب صورتیں جنگی تدبیریں کہلاتی ہیں اسے جنگ سے فرار نہیں کہا جاسکتا، فرار سے مقصد اپنی جان بچانا مقصود ہو تو یہ گناہ کبیرہ ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! سات ہلاک ہونے والی چیزوں سے بچو جن میں ایک مقابلے والے دن پیٹھ پھیر جانا ہے۔(بخاری: ۲۷۶۶) اس گناہ کی شدت صرف اس وجہ سے نہیں کہ ایک شخص اپنی جان بچا کر فوج میں ایک فرد کی کمی کا باعث بنتا ہے ۔بلکہ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس فعل سے باقی لوگوں کے حوصلے بھی پست ہوتے ہیں، بھگڈر مچ جاتی ہے۔اور بسا اوقات ایک یا دو شخصوں کافرار پوری فوج کی شکست کا سبب بن جاتا ہے لہٰذا مذکورہ صورتوں کے علاوہ کوئی شخص میدان جنگ سے پیٹھ پھیرے گااسکے لیے یہ سخت و عید ہے۔