سورة الانفال - آیت 9

إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جب تم نے اپنے رب سے فریاد کی سو اس نے تمہاری دعا قبول فرمائی کہ میں ایک ہزار فرشتے لگاتار بھیج کر تمہاری مدد کروں گا ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی، جب کہ کافر اس سے تین گنا یعنی ہزار کے قریب تھے۔ پھر مسلمان نہتے اور بے سرو سامان تھے جبکہ کافروں کے پاس اسلحہ کی بھی فراوانی تھی ۔ان حالات میں مسلمانوں کا سہارا صرف اللہ ہی کی ذات تھی جس سے وہ گڑ گڑا کر مدد کی فریا دیں کررہے تھے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ سے دُعا مانگ رہے تھے،کہ الٰہی جو تیرا وعدہ ہے اسے پورا فرما،اے اللہ اسلام کی یہ تھوڑی سی جماعت اگر ہلاک ہو جائے گی، تو پھر کبھی بھی تیری توحید کی عبادت زمین پر نہ ہو گی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بدر کے دن آپ کافی دیر قبلہ روہو کر ہاتھ پھیلا ئے رہے یہاں تک کہ چادر آپکے کندھوں سے گر گئی، اتنے میں سید نا ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے،انھوں نے چادر اُٹھا کر آپکے کندھے پر ڈالی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چمٹ گئے اور کہا: اے اللہ کے نبی! آپ نے اپنے رب سے آہ وزاری کرنے میں حد کر دی بیشک اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا وعدہ پورا کرے گاپھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (بخاری: ۳۹۵۳) فرشتوں کا نزول: سید نا عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مسلمان ایک کافر کے پیچھے دوڑرہا تھا کہ اسے اوپرسے ایک کوڑے کی آواز آئی وہ سوار کہہ رہا تھا کہ آگے بڑھ وہیں دیکھاکہ کافر چت گرا ہوا ہے۔اسکی ناک پر نشان تھا اور سَر پھٹ گیا تھا ۔گویا کسی نے اُسے کوڑا مارا ہے ۔ وہ انصاری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سارا واقعہ بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم سچ کہتے ہو یہ فرشتے آسمان سے مدد کے لیے آئے تھے۔ (مسلم: ۱۷۶۳)