كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ
جیسے کہ تجھے (اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) تیرے رب نے سچائی کے ساتھ تیرے گھر سے نکالا ، اور مسلمانوں کی ایک جماعت راضی نہ تھی (ف ١) ۔
جنگ بدر کا پس منظر: جنگ بدر 2ہجری میں ہوئی یہ کافروں کے ساتھ مسلمانوں کی پہلی جنگ تھی ۔یہ منصوبہ بندی اور تیاری کے بغیر اچانک ہوئی تھی ۔اور بے سرو سامانی کی وجہ سے بعض مسلمان ذہنی طور پر اس كے لیے تیار نہ تھے ۔مختصر اَ اسکا پس منظر یہ ہے کہ ابوسفیان جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ان کی سرکردگی میں ایک تجارتی قافلہ شام سے مکہ جارہا تھا ‘چونکہ مسلمانوں کا بھی بہت سامال و ا سباب ہجرت کی وجہ سے مکہ رہ گیا تھا، یا کافروں نے چھین لیا تھا ۔نیز کافروں کی قوت و شوکت کو توڑ نا بھی وقت کا تقاضا تھا،ان تمام باتوں کے پیش نظر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تجارتی قافلے پر حملہ کا پرو گرام بنایا اور مسلمان اس نیت سے مدینہ سے چل پڑے۔ ابو سفیان کو بھی اس اَمر کی اطلاع مل گئی چنانچہ انھوں نے ایک تو اپنا راستہ تبدیل کر لیا، دوسر ے مکہ اطلاع بھجو ا دی کہ جس کی بنا پر ابوجہل ایک لشکر لے کر اپنے قافلے کی حفاظت کے لیے بدر کی طرف چل پڑا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صورت حال کا علم ہوا تو معاملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے رکھ دیا،اور اللہ کا وعدہ بھی بتلایا کہ ان دونوں (تجارتی قافلہ اور لشکر)میں سے ایک چیز تمہیں ضرور حاصل ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادیا تھا، اکثر مسلمان دل سے چاہتے تھے کہ قافلہ مل جائے کیو نکہ یہ نسبتاً ہلکی چیز تھی، لیکن اللہ کا ارادہ تھاکہ اسوقت بغیر زیادہ تیاری و اہتمام کے کافروں کے جنگی قافلہ کے ساتھ مڈ بھیڑ ہوجائے اور حق وباطل کی تمیز ہوجائے کفار کی ہمت ٹوٹ جائے اور دین نکھر کر سامنے آجائے، اسی پس منظر میں یہ آیات ناز ل ہوئیں ۔ اللہ حق کے لیے نکال لایا: یعنی جس طرح مال غنیمت کی تقسیم کا معاملہ مسلمانوں کے درمیا ن اختلاف کا باعث بنا ہوا تھا، پھر اسے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کر دیا گیا تو اسی میں مسلمانوں کی بہتر ی تھی، اسی طرح آپ کا مدینہ سے نکلنا اور پھر آگے چل کر تجارتی قافلے کی بجائے لشکر قریش سے مڈ بھیڑ ہو جانا، گو بعض مسلمانوں کو نا گوار تھا، لیکن اس میں بھی بالآ خر فائدہ مسلمانوں کا ہی ہو گا اور یہ نا گواری صرف اسوجہ سے تھی کہ مسلمان بے سر و ساما نی کی حالت میں تھے۔ اور یہ اظہار صرف چند افراد کی طرف سے ہوا جبکہ دوسرے تمام صحابہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑنے میں بھر پور تعاون کا یقین دلایا ۔ ابن ابی حاتم سے روایت ہے: ’’بدر کی جانب چلتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رو حاء كے مقام پر خطبہ دیا فرمایا بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت صدیق اکبر نے فرمایا ہمیں معلوم ہے کہ وہ لوگ فلاں فلاں جگہ ہیں ۔آپ نے پھر خطبہ دیا اس مرتبہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے یہی جواب دیا،آپ نے تیسرے خطبے میں یہی فرمایا ۔اس پر سعد بن معاذ نے جواب دیا، اللہ کی قسم جس نے آپکو بزرگی عنایت فرمائی اور اپنی کتا ب نازل فرمائی نہ میں ان راستوں میں کبھی چلاہوں نہ مجھے لشکر کا علم ہے ۔ہاں میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ آپ برک الضما د تک بھی چڑھا ئی کریں تو واللہ ہم آپ کی رکاب تھا مے آپکے پیچھے ہو نگے۔ہم موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح نہیں کہیں گے کہ جاؤ تم اور تمہارا پروردگار لڑے ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘ (ابن کثیر: ۲/ ۴۶۰)