سورة الاعراف - آیت 180

وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اللہ کے سب نام اچھے ہیں ، سو تم ان سے اسے پکارو ، اور انہیں چھوڑ دو ، جو اس کے ناموں میں کجی کی راہ چلتے ہیں ، وہ اپنے کئے کی سزا پائیں گے (ف ٢) ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اچھے ناموں سے مراد، وہ نا م ہیں جن سے خداکی عظمت و پاکیزگی،تقدس و برتری اور اسکی صفات کمالیہ کا اظہار ہوتا ہو، اللہ کا ذاتی نام صرف اللہ ہے، باقی جتنے نام ہیں سب صفاتی نام ہیں، صحیح حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو شخص انھیں یاد کرلے، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ (بخاری: ۲۷۳۶) اللہ تعالیٰ طاق ہے، طاق کو پسند فرماتاہے، ان کو شمار کرنے کا مطلب ہے ان پر ایمان لانا، یا ان کو گننا اور انھیں ایک ایک کرکے بطور تبرک اخلاص کے ساتھ پڑ ھنا، یا ان کا حفظ کرنا، ان کے معنی کا جاننا بابرکت ہے ۔ الحاد کے معنی ہیں کسی ایک طرف مائل ہونا،اسی سے لحد ہے، جو قبر ایک طرف کرکے بنائی جائے اُسے لحد والی قبر کہتے ہیں، الحا د اختیار کرنے کا مطلب کج روی اور گمراہی اختیار کرنا ہے،اللہ تعالیٰ کے ناموں میں ا لحاد (کج روی) کی تین صورتیں ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ کے ناموں میں تبدیلی کردی جائے جیسے مشرکین نے کیا مثلا اللہ کے ذاتی نام سے اپنے ایک بت کا نام لات اور اس کے صفاتی نام عز یز سے عزی بنا لیا (2) یا اللہ کے ناموں میں اپنی طرف سے اضافے کر لینا ‘جس کا حکم اللہ نے نہیں دیا، (3) یا ان ناموں میں کمی کردی جائے،مثلا اسے کسی ایک ہی مخصوص نام سے پکار ا جائے، اور دوسرے صفاتی ناموں سے پکار نا بُر ا سمجھا جائے۔ (فتح القدیر: ۳/ ۱۲۴) صفاتی ناموں میں کسی دوسرے کو بھی تسلیم کرنا جیسے کسی کو عالم الغیب یا رزاق یاد اتا اور حاجت روا، مشکل کُشا، کا ر سازسمجھنا، غرض الحاد کی جتنی بھی قسمیں ہیں سب کفر و شرک اور گمراہی کی طر ف لے جانے والی ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی صفات کو زیر بحث نہیں لانا چاہیے، کیونکہ انسانی عقل محدود او راللہ تعالیٰ کی صفات لا محدود ہیں اللہ تعالیٰ نے خود بھی منع فرمایا ہے۔ ( لا تَضْرِبُوْا لِلہِ الْاَ مْثَالَ)