فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَٰذِهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ ۗ أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
پھر جب ان کے پاس کوئی خوشحالی آتی تھی تو کہتے تھے کہ یہ ہمارے لئے ہے اور اگر کوئی بدحالی پیش آتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی شومی بتلاتے تھے ، سن لے ، ان کی شومی اللہ کے پاس ہے ، مگر اکثر شخص نہیں جانتے ۔
جب بھلائی یعنی پیداوار غلوں اور پھلوں میں فراوانی ہوتی تو سارا کریڈٹ خو د لیتے کہ یہ ہماری محنت کا ثمرہ ہے۔ اور جب مصیبتں آتیں، بد حالی ہو تی تو موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ایمان لانے والوں کو اسکا سبب قرار دیتے کہ یہ تم لوگوں کی نحوست کے اثرات ہمارے ملک پر پڑرہے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ کہ خیر و شر جو خوشحالی یا قحط سالی کی وجہ سے ان کو پہنچتاہے اس کے اسباب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، موسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیروکار اس کاسبب نہیں اور ان کی بد شگونی کا سبب اللہ کے علم میں ہے، اور وہ ان کا کفر اور انکار ہے، نہ کہ کچھ اور بلكہ یہ اللہ کی طرف سے ان کے کفر کی وجہ سے ہے۔