سورة البقرة - آیت 96

وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَىٰ حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا ۚ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن يُعَمَّرَ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور تو انہیں اور سب آدمیوں کی نسبت (دنیوی) زندگی پرزیادہ حریص پائے گا اور مشرکین (عرب) میں سے بھی ایک ایک چاہتا ہے کہ ہزار برس کی عمر پائے اور حالانکہ اتنا جتنا کچھ اسے عذاب سے نہ بچائے گا اور جو کچھ وہ کرتے ہیں ، اللہ دیکھتا ہے ۔ (ف ١)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مشرکین نہ آخرت کے قائل تھے اور نہ عذاب و ثواب کے اور نہ جنت اور دوزخ کے لہٰذا ان کو مرنے کے بعد کوئی خطرہ نظر نہیں آتا تھا۔ مگر یہود روز جزاء کے قائل تھے۔ اور اپنی بد کرداریوں کا حال بھی یہ خوب جانتے تھے۔ لہٰذا وہ مشرکوں کے مقابلے میں تادیر دنیا میں رہنے کے حریص تھے ۔ یہود کو دنیا کی ہوس تھی خواہ یہ عزت کی ہو یا ذلت کی۔ اور یہی لمبی زندگی آخرت میں ان کے لیے زیادہ عذاب کا سبب بن جائے گی۔ (۱) ۔ جس کے اندر دینداری ہوگی اور وہ اللہ سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے۔ (۲)۔ خواہش پرست جلدی مرنا نہیں چاہے گا۔ خواہش پر ست لمبی لمبی امیدیں باندھتا ہے۔ اسے مال کی ہوس اور دنیا کی حرص ہوتی ہے اور وہ آخرت سے بے خوف ہوتا ہے۔