سورة الاعراف - آیت 70

قَالُوا أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا ۖ فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کہنے لگے کیا تو اس لئے ہمارے پاس آیا ہے ‘ کہ ہم اکیلے خدا کی پرستش کریں ‘ اور جن کو ہمارے بڑے پوجتے تھے ، چھوڑ دیں (ف ١) ۔ ؟ سو جس عذاب سے تو ڈراتا ہے اگر سچا ہے ، تو لے آ ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

آباء اجداد کی تقلید ہر دور میں گمراہی کی بنیاد رہی ہے قوم عاد نے بھی سرکشی ضد اور عناد کی وجہ سے یہی دلیل پیش کی، کہ کیا ہم اللہ واحد کی پرستش کریں اور اپنے باپ داداؤں کے پرانے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ پھر کہا کہ اگر تم واقعی سچے ہو تو جس عذاب کی دھمکی دے رہے ہو وہ لاسکتے ہو تو لے آؤ، بد قسمتی سے مسلمانوں میں بھی اپنے بڑوں کی تقلید کی یہ بیماری عام ہے۔ جس طرح قریش نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید کے جواب میں کہا تھا ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ﴾ (الانفال: ۳۲) ’’اے اللہ اگر یہ حق ہے تیری طرف سے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا، یا کوئی اور دردناک عذاب ہم پر بھیج دے۔‘‘ یعنی شرک کرتے کرتے مشرک کی مت بھی ماری جاتی ہے۔ حالانکہ عقل مندی کا تقاضا یہ تھا کہ یہ کہا جاتا، یا اللہ اگر یہ سچ ہے اور تیری ہی طرف سے ہے تو ہمیں اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرما۔