سورة البقرة - آیت 95

وَلَن يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور وہ یہ (موت) کی آرزو ہرگز نہیں کریں گے بہ سبب اس کے جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں اور اللہ ظالموں کو جانتا ہے ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

موت کی تمنا نہ کرنے کے پیچھے بھی بُرے اعمال ہیں۔ اسی وجہ سے وہ زندگی کے حریص ہیں۔ موت اور زندگی کی تمنا میں سے کیا بہتر ہے۔نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم كا ارشاد ہے: ’’ تم میں سے کوئی بھی کسی مصیبت کے وقت موت کی تمنا نہ کرے اور یہ دعا کرے کہ ’’اے اللہ جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہے تو مجھے زندہ رکھ اور جب موت بہتر ہو تو موت دے دے۔‘‘(مسلم: ۶۸۱۴) ’’کوئی موت کی تمنا نہ کرے ۔ مومن کی زندگی، عمر بھلائی کے لیے زیادہ ہوتی ہے موت کے بعد اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے جسم کے کسی حصے کو چھوا اور فرمایا دنیا میں ایسے رہو کہ راہ چلتے مسافر ہو یا اجنبی اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو۔ جب صبح کرنا توشام کا انتظار نہ کرنا اور جب شام کرنا تو صبح کا انتظار نہ کرنا۔ ابن آدم بوڑھا ہوجاتا ہے مگر دو چیزوں میں زندہ رہتا ہے لمبی عمر اور مال کی حرص۔ اے آدم کے بیٹے تو اپنے دل کو میری یاد کے لیے فارغ کرلے ۔ میں تیرے دل کو بے فکری کی دولت سے بھردوں گا اور فکر غریبی اور محتاجی کے سوراخ بھر دوں گا۔ اور اگر تونے ایسا نہ کیا تو میں تجھے فکر اور محتاجی دوں گا ۔ (مسند احمد: ۳/ ۱۶۹، ح: ۱۲۱۴۲)