سورة الاعراف - آیت 53

هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ ۚ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ يَقُولُ الَّذِينَ نَسُوهُ مِن قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَل لَّنَا مِن شُفَعَاءَ فَيَشْفَعُوا لَنَا أَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ قَدْ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کیا (اہل مکہ) ایس انتظار میں ہیں کہ قرآن کا انجام کار دیکھیں ‘ جس دن اس کا انجام کار آئے گا وہ جو اسے پہلے بھول رہے تھے یوں کہیں گے بیشک ہمارے رب کے رسول ہمارے پاس سچی بات لے کر آتے تھے ، اب کوئی ہمارے شفیع ہیں کہ ہماری (ف ١) ۔ شفاعت کریں ؟ یا ہم کو دنیا میں واپس کٹ جائیں کہ جو کچھ ہم کیا کرتے تھے ‘ اس کے خلاف جا کر کریں ، بیشک انہیں نے اپنی جانوں کا نقصان کیا اور جو جھوٹ باندھتے تھے ، ان سے گم ہوگیا ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

قرآن کریم میں آخرت کی ساری خبریں بتادی گئی تھیں یعنی جنت کے وعدے اور دوزخ کا بیان لیکن یہ اس دنیا کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے منتظر تھے۔ اور انجام سامنے آجانے کے بعد اعتراف حق کرتے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حق لیکر آئے تھے پھر وہ سفارشی ڈھونڈیں گے، یا دنیا میں واپس بھیج دینے کی سفارش کریں گے جب اہل جہنم اورا ہل جنت اپنے اپنے مقام پر پہنچ جائیں گے۔ غفلت کا پردہ چاک ہوجائے گا، اس دن کچھ فائدہ نہیں ہوگا، اس دن وہ معبود بھی ان سے گم ہوجائیں گے جن کی وہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے، انسان جس دنیا میں مشغول ہوتا ہے اسی پر بھروسہ کرتاہے پھر دنیا بھی چلی جاتی ہے اور آخرت کے لیے بھی کچھ پاس نہیں ہوتا۔