قَالَ ادْخُلُوا فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ فِي النَّارِ ۖ كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا ۖ حَتَّىٰ إِذَا ادَّارَكُوا فِيهَا جَمِيعًا قَالَتْ أُخْرَاهُمْ لِأُولَاهُمْ رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ۖ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَٰكِن لَّا تَعْلَمُونَ
اللہ کہے گا جنوں اور آدمیوں کی امتوں کو سمیت جو تم سے پہلے ہو گزری ہیں ، تم بھی آگ میں داخل ہو جب ایک امت داخل ہوگی تو دوسری کو لعنت کریگی ، یہاں تک کہ جب سب دوزخ میں رل مل چکیں گے ، تو پچھلے پہلوں کے حق میں کہیں گے ، اے ہمارے رب ہمیں انہوں نے گمراہ کیا تھا سو انہیں آگ کا دونا عذاب دے ، وہ کہے گا سب کے لئے دونا ہے مگر تم نہیں جانتے ۔ (ف ٢) ۔
(١) اصحاب دوزخ کے بعض احوال و واردات جو عالم آخرت میں پیش آئیں گے۔ آیت (٣٨) میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جب کوئی جماعت برائی میں مبتلا ہوتی ہے تو خود بھی گمراہ ہوتی ہے اور دوسروں کے لیے بھی گمراہی کی مثال قائم کردیتی ہے۔ اسی لیے پچھلی امتیں اپنے سے پہلی امتوں پر لعنت بھیجیں گی کہ ان کی تقلید و پیروی میں ہم گمراہ ہوئیں۔ فرمایا : تم میں سے ہر ایک کے لیے دوگنا عذاب ہے، یعنی ہر ایک جماعت خود بھی گمراہ ہوئی اور اپنے سے بعد آنے والوں کے لیے بھی بری مثال قائم کی۔ پس سب اس کی مستحق ہوئیں کہ دوگنا عذاب پائیں۔