سورة البقرة - آیت 85

ثُمَّ أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِّنكُم مِّن دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِم بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ ۚ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر تم آپس میں ویسی ہی خونریزی کرتے ہو اور پنے سے ایک فرقے کو ان کے وطن سے نکال دیتے ہو ، گناہ اور ظلم سے ان پر چڑھائی کرتے ہو پھر اگر وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آتے ہیں تو ان کا فدیہ دے کر انہیں چھڑاتے ہو ، اور ان کا تو نکالنا ہی تم پر حرام تھا ۔ پھر کیا کتاب کی بعض باتیں مانتے اور بعض باتوں کا انکار کرتے ہو ؟ پس جو کوئی تم میں سے ایسا کرتا ہے اس کی سوائے اس کے (اور) کیا سزا ہے کہ دنیا کی زندگی میں رسوا ہوں اور قیامت کے دن سخت سے سخت عذاب میں پہنچائے جائیں اور خدا تمہارے کاموں سے غافل نہیں ہے (ف ١) ۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ حالت اس بات کا نتیجہ ہے کہ راست بازی اور حق پرستی کی جگہ نفسانی خواہشوں کی پرستش کی جاتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ غرض پرستوں نے ہمیشہ داعیان حق و اصلاح کی مخالفت کی ہے۔ بنی اسرائیل کے تکذیب رسل اور قتل انبیا سے استشہاد، کہ جس طرح ہمیشہ سچائی کے منکر و معاند رہے، اسی طرح اب بھی انکار و عناد میں سرگرم ہیں۔