يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
مومنو ! تم اپنی جانوں کا فکر کرو ، جب تم نے ہدایت پائی تو گمراہ شخص تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، تم سب کو خدا ہی کی طرف جانا ہے سو وہ تمہیں جتائے گا ، جو تم کرتے تھے (ف ١) ۔
72: کفار کی جوگمراہیاں پیچھے بیان ہوئی ہیں ان کی وجہ سے مسلمانوں کو صدمہ ہوتا تھا کہ اپنی ان گمراہیوں کے خلاف واضح دلائل آجانے کے بعد اور آنحضرتﷺ کی طرف سے بار بار سمجھانے کے باوجود یہ لوگ اپنی گمراہیوں پر جمے ہوئے ہیں، اس آیت نے ان حضرات کو تسلی دی ہے کہ تبلیغ کا حق ادا کرنے کے بعد تمہیں ان کی گمراہیوں پر زیادہ صدمہ کرنے کی ضرورت نہیں، اور اب زیادہ فکر خود اپنی اصلاح کی کرنی چاہئے، لیکن جس بلیغ انداز میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے اس میں ایک تو ان لوگوں کے لئے ہدایت کا سامان ہے جو ہر وقت دوسروں پر تنقید کرنے اور ان کے عیب تلاش کرنے میں تو بڑے شوق سے مشغول رہتے ہیں، مگر خود اپنے گریبان میں منہ ڈالنے کی زحمت نہیں اٹھاتے، ان کو دوسروں کا تو چھوٹے سے چھوٹا عیب آسانی سے نظر آجاتا ہے مگر خود اپنی بڑی سے بڑی برائی کا احساس نہیں ہوتا، ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اگر بالفرض تمہاری تنقید صحیح بھی ہو اور دوسرے لوگ گمراہ بھی ہوں تب بھی تمہیں تو اپنے اعمال کا جواب دینا ہے، اس لئے اپنی فکر کرو اور دوسروں پر تنقید کی فکر میں نہ پڑو، اس کے علاوہ جب معاشرے میں بد عملی کا چلن عام ہوجائے تو اس وقت اصلاح کی طرف لوٹنے کا بھی بہترین نسخہ یہی ہے کہ ہر شخص دوسروں کے طرز عمل کو دیکھنے کے بجائے اپنی اصلاح کی فکر میں لگ جائے، جب افراد میں اپنی اصلاح کی فکر پیدا ہوگی تو چراغ سے چراغ جلے گا اور رفتہ رفتہ معاشرہ بھی اصلاح کی طرف لوٹے گا۔