يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ
مومنو ! ایسی باتیں جن کی حقیقت اگر تم پر کھول دی جائے تو تمہیں بری معلوم ہو رسول سے نہ پوچھا کرو (ف ١) ۔ اور جب تم انکی حقیقت ایسے وقت میں پوچھو گے کہ قرآن اتر رہا ہے تو ان کا بھید تمہارے لئے کھولا جائے گا خدا نے ان سے درگزر کی اور خدا بخشنے والا بردبار ہے ۔
69: مطلب یہ ہے کہ اول تو جن باتوں کی کوئی خاص ضرورت نہ ہو ان کی کھوج میں پڑنا فضول ہے، دوسرے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض اوقات کوئی حکم مجمل طریقے سے آتا ہے اگر اس حکم پر اسی اجمال کے ساتھ عمل کرلیا جائے تو کافی ہے، اگر اللہ تعالیٰ کو اس میں مزید تفصیل کرنی ہوتی تو وہ خود قرآن کریم یا نبی کریمﷺ کی سنت کے ذریعے کردیتا، اب اس میں بال کی کھال نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر نزول قرآن کے زمانے میں اس کا کوئی سخت جواب آجائے تو خود تمہارے لئے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں، چنانچہ اس آیت کے شان نزول میں ایک واقعہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب حج کا حکم آیا اور آنحضرتﷺ نے لوگوں کو بتایا تو ایک صحابی نے آپ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا حج عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے یا ہر سال کرنا فرض ہے؟ آنحضرتﷺ نے اس سوال پر ناگواری کا اظہار فرمایا، وجہ یہ تھی کہ حکم کے بارے میں اصل یہی ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے خود یہ صراحت نہ کی جائے کہ اس پر با ربار عمل کرنا ہوگا (جیسے نماز روزے اور زکوۃ میں یہ صراحت موجود ہے) اس وقت تک اس پر صرف ایک بار عمل کرنے سے حکم کی تعمیل ہوجاتی ہے اس لئے اس سوال کی کوئی ضرورت نہیں تھی، آپﷺ نے صحابی سے فرمایا کہ اگر میں تمہارے جواب میں یہ کہہ دیتا کہ ہاں ہر سال فرض ہے تو واقعی پوری امت پر وہ ہر سال فرض ہوجاتا۔