سورة المآئدہ - آیت 64

وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ ۚ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا ۚ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

یہود کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ بندھ گیا ہے انہیں کے ہاتھ باندھے جائیں اور ان کے اس کہنے کے سبب ان پر لعنت ہے بلکہ خدا کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں (ف ٣) جس طرح وہ چاہتا ہے خرچ کرتا ہے اور البتہ وہ جو تیری طرف رب سے نازل ہوا ہے وہ ان میں سے اکثروں کی شرارت اور کفر زیادہ کرے گا اور ہم نے ان میں قیامت کے دن تک دشمنی اور بغض ہی ڈال رکھا ہے جب کبھی بھی وہ لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں خدا اسے بجھا دیتا ہے اور وہ زمین میں فساد کے لئے دوڑتے ہیں اور خدا مفسدوں کو دوست نہیں رکھتے ۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

46: جب مدینہ منورہ کے یہودیوں نے آنحضرتﷺ کی دعوت کو قبول نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو تنبیہ کے طور پر کچھ عرصے کے لئے معاشی تنگی میں مبتلا کردیا، اس موقع پر بجائے اس کے کہ وہ ہوش میں آتے ان کے بعض سرداروں نے یہ گستاخانہ جملہ کہا، ہاتھ کا بندھا ہونا عربی میں بخل اور کنجوسی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لہذا ان کا مطلب یہ تھا کہ معاذاللہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ بخل کا معاملہ کیا ہے، حالانکہ بخل کی صفت تو خود ان کی مشہور ومعروف تھی اس لئے فرمایا گیا کہ ہاتھ تو خود ان کے بندھے ہوئے ہیں۔ 47: یہ یہودیوں کی ان سازشوں کی طرف اشارہ ہے جو وہ مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ مل کر کرتے رہتے تھے، اگرچہ انہوں نے آنحضرتﷺ سے جنگ بندی کا معاہدہ کررکھا تھا ؛ لیکن درپردہ اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ مسلمانوں پر کوئی حملہ ہو اور وہ اس میں شکست کھائیں، مگر اللہ تعالیٰ ہر موقع پر ان کی سازش کو ناکام بنادیتے تھے۔