سورة المآئدہ - آیت 41

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ ۛ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا ۛ سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ ۖ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا ۚ وَمَن يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَن يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اے رسول ! تو ان پر جو کفر کی طرف دوڑتے ہیں اور مونہوں سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں (یعنی منافق) اور ان کے دل اسلام کو قبول نہیں کرتے غم نہ کھا (ف ٢) اور ان سے جو (مدینہ کے) یہودی ہیں جھوٹ بولنے کی جاسوسی کرتے ہیں اور دوسرے لوگوں کے لئے جو اب تک تیرے پاس نہیں آئے جاسوسی کرتے ہیں باتوں کو ان کے ٹھکانے سے بےٹھکانے کردیتی ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر (محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی طرف سے تمہیں یہ حکم ملے تو قبول کرنا اور اگر یہ حکم نہ ملے تو ماننے سے بچنا اور خدا نے جس کی گمراہی کا ارادہ کیا تو تو اس کے لئے اللہ کے ہاں کچھ نہیں کرسکتا ، یہ وہ ہیں کہ اللہ ان کے دل پاک کرنا نہیں چاہتا ، ان کے لئے دنیا میں ذلت اور آخرت میں بڑا عذاب ہے ،

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

32: یہاں سے آیت نمبر : ٥٠ تک کی آیتیں کچھ خاص واقعات کے پس منظر میں نازل ہوئی ہیں، جن میں کچھ یہودیوں نے اپنے کچھ جھگڑے اس امید پر آنحضرتﷺ کے پاس لانے کا ارادہ کیا تھا کہ آپ ان کا فیصلہ ان کی خواہش کے مطابق کریں گے، ان میں سے ایک واقعہ تو یہ تھا کہ خیبر کے دو شادی شدہ یہودی مرد و عورت نے زنا کرلیا تھا، جس کی سزا خود تورات میں یہ مقرر تھی کہ ایسے مرد و عورت کو سنگسار کرکے ہلاک کیا جائے، یہ سزا موجودہ تورات میں بھی موجود ہے (دیکھئے استثناء : ٢٢، ٢٣، ٢٤) لیکن یہودیوں نے اس کو چھوڑکر کوڑوں اور منہ کالا کرنے کی سزا مقرر کررکھی تھی، شاید وہ یہ چاہتے تھے کہ اس سزا میں بھی کمی ہوجائے اس لئے انہوں نہ یہ سوچا کہ آنحضرتﷺ کی شریعت میں بہت سے احکام تورات کے احکام کے مقابلے میں نرم ہیں، اس لئے اگر آپ سے فیصلہ کرایاجائے تو شاید آپ کوئی نرم فیصلہ کریں اور یہ مرد و عورت سنگساری کی سزا سے بچ جائیں، اس غرض کے لئے خیبر کے یہودیوں نے مدینہ منورہ میں رہنے والے کچھ یہودیوں کو جن میں سے کچھ منافق بھی تھے، ان مجرموں کے ساتھ آنحضرتﷺ کی خدمت میں بھیجا، مگر ساتھ ہی انہیں یہ تاکید کی کہ اگر آپ سنگساری کے سوا کوئی اور فیصلہ کریں تو اسے قبول کرلینا اور اگر سنگساری کا فیصلہ کریں تو قبول مت کرنا، چنانچہ یہ لوگ آپ کے پاس آئے، آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتادیا گیا تھا کہ اس کی سزا سنگساری ہے، جسے سن کر وہ بوکھلاگئے، آپ نے انہی سے پوچھا کہ تورات میں اس کی سزا کیا ہے، شروع میں انہوں نے چھپانے کی کوشش کی مگر آخر میں جب آپ نے ان کے ایک بڑے عالم ابن صوریا کو قسم دی اور حضرت عبداللہ بن سلام (رض) جو پہلے خود یہودی عالم تھے ان کا پول کھول دیا تو وہ مجبور ہوگیا اور اس نے تورات کی وہ آیت پڑھ دی جس میں زنا کی سزا سنگساری بیان کی گئی تھی، اور یہ بھی بتایا کہ تورات کا حکم تو یہی تھا مگر ہم میں سے غریب لوگ یہ جرم کرتے تو یہ سزا ان پر جاری کی جاتی تھی اور کوئی مال دار یا باعزت گھرانے کا آدمی یہ جرم کرتا تو اسے کوڑوں وغیرہ کی سزا دے دیا کرتے تھے، پھر رفتہ رفتہ سبھی کے لئے سنگساری کی سزا کو چھوڑدیا گیا، اس قسم کا ایک دوسرا واقعہ بھی پیش آیا تھا جس کی تفصیل نیچے آیت نمبر ٤٥ کی تشریح : میں آرہی ہے۔ 33: یعنی یہودیوں کے پیشوا جو جھوٹی بات تورات کی طرف منسوب کر کے بیان کردیتے ہیں، اور وہ ان کی خواہشات کے مطابق ہوتی ہے تو یہ اسے بڑے شوق سے سنتے اور اس پر یقین کرلیتے ہیں، چاہے وہ تورات کے صاف اور صریح احکام کے خلاف ہو اور یہ لوگ جانتے ہوں کہ ان کے پیشواؤں ن نے رشوت لے کر یہ بات بیان کی ہے۔ 34: اس سے ان یہودیوں کی طرف اشارہ ہے جو خود تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نہیں آئے، لیکن ان یہودیوں اور منافقوں کو آپ کے اس بھیج دیا۔ جو لوگ آئے تھے وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات اس لیے سننے آئے تھے کہ آپ کا موقف سننے کے بعد ان لوگوں کو مطلع کریں جنہوں نے ان کو بھیجا تھا۔ 35: چونکہ یہ دنیا آزمائش ہی کے لئے بنائی گئی ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو زبردستی راہ راست پر لاکر اس کے دل کو پاک نہیں کرتا جو ضد پر اڑ ہوا ہو، یہ پاکیزگی انہی کو عطا ہوتی ہے جو حق کی طلب رکھتے ہوں اور خلوص کے ساتھ اسے قبول کریں۔