وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا
اور یہ کہ مسجدیں اللہ کی ہیں سو تم اللہ کے ساتھ کسی (ف 2) کہ نہ پکارو
(٢) مفردات، میں ہے، المسجد بکسرالجیم موضع السجود۔ اگرچہ مسجد کے مفہوم کے متعلق مفسرین نے طرح طرح کے اقوال نقل کیے ہیں مگر صاف بات یہی ہے جوامام راغب اصفہانی نے لکھی ہے، یعنی، مسجد، بکسرجیم ہے اور اس سے وہ مقام مراد ہے جہاں فاطرالسماوات والارض کے آگے جبین نیاز، زمین پر رکھی جائے اس کی جمع ہے مساجد۔ پس مسجد کا مفہوم اس کے نام سے ظاہر ہے، سورۃ جن کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس مفہوم کی تحدید کی کہ، وان المساجد للہ۔ کہ مسجدیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ مساجد کے متعلق پہلا حکم یہ ہے کہ وہ صرف اللہ ہی کے لیے ہے، یعنی ان کے اندر صرف وہی اعمال انجام دیے جاسکتے ہیں جو اللہ کے لیے مخصوص ہیں، اس کے بعد فرمایا، فلاتدعوا مع اللہ احدا۔ پس مسجدوں میں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو۔ اس جملے نے ان تمام اعمال کی نہی عام کردی جو خدا کے سوا کسی اور کے لیے انجام دیے جائیں خواہ وہ لسانی ہوں یابدنی۔ امام طبری نے حضرت ابن عباس سے یہ تفسیر نقل کی ہے۔ ” افردوا المساجد بذکر اللہ تعالیٰ والاتجعلوا لغیر اللہ فیھا نصیبا“۔ مسجدوں کو صرف اللہ کے ذکر کے لیے مخصوص کرواللہ تعالیٰ کے سواغیروں کے لیے وہاں ذکر وعبادت میں کوئی حصہ نہ ہو۔ امام طبری، امام رازی، حافظ ابن کثیر، وغیرہم اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ ” قال قتادہ، کانت الیھود والنصاری اذا دخلوا کنائسھم اشرکوابااللہ فامر اللہ بنبیہ ان یوحدوہ وحدہ“ قتادہ نے اس آیت کے شان نزول میں کہا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا قاعد تھا کہ جب اپنے گرجوں میں جاتے تھے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے ذکر میں بندوں کو بھی شریک کرتے تھے پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ مسجد کو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے مخصوص اور صرف اسی کے ذکر کے لیے محدود کریں۔ اور ان اقتباسات سے مندرجہ ذیل نتائج مقصد مساجد کے متعلق حاصل ہوتے ہیں۔ ١۔ مساجد کی تعمیر اور ان کا قیام صرف اس لیے ہے کہ وہ عمارتیں اللہ تعالیٰ کے نام سے مخصوص کردی جائیں، ان کا مقصد صرف یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے لیے ہوں اور اسی کے ذکر وعبادت کے لیے وہاں لوگ جمع ہوں۔ ٢۔ یہود ونصاری کا قاعدہ ہے کہ وہ اپنے گرجوں میں خدا کے ساتھ انسانوں کا بھی ذکر کرتے ہیں اور اس عقیدت وطاعت اور ذوق عبادت کے ساتھ جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے مخصوص ہے اس آیت میں اس سے روکا گیا اور فرمایا کہ مسجدیں اللہ کے لیے ہیں نہ کہ انسانوں کے ذکر کے لیے۔ سورۃ جن کی اسی آیت کے ساتھ کاٹکڑا ہے :” وانہ لما قام عبداللہ یدعوہ کادو یکونون علیہ لبدا“ اور جب اللہ تعالیٰ کابندہ مخلص (یعنی حضرت داعی اسلام) اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو لوگ اس کے گرداگرد جمع ہوجاتے ہیں اور اس طرح نزدیک آآکر دیکھتے ہیں گویا کہ قریب ہے کہ لپٹ پڑیں گے۔ اس آیت کے شان نزول میں متعدد اقوال ہیں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے یا قرآن مجید پڑھتے تو حرص استمتاع میں لوگ ہجوم کرکے ایک دوسرے پر گرنے لگتے اور نہایت قریب آجاتے، اللہ تعالیٰ نے اس کی ممانعت فرمائی، امام ابن جریر رحمہ اللہ تعالیٰ نے تفسیر میں بروایت سعید بن جبیر (رض) دوسرا قول نقل کیا ہے، لمارواہ یصلی واصحابہ یرکعون برکوعہ ویسجدون بسجودہ، قال عجبوا من اطاعۃ اصحابہ لہ۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب کو نماز میں اس طرح دیکھتے کہ سب کے سب ان کے جھک جانے کے ساتھ ہی جھک جاتے ہیں اور ان کے سجدہ کرنے کے ساتھ ہی سجدہ میں گر جاتے ہیں تو ان کی اس عجیب اطاعت وفرمانبرداری پر ان کو نہایت تعجب ہوہوتا اور متحیر ہوہو کردیکھنے لگتے۔ حافظ عماد الدین ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں بروایت حسن رحمہ اللہ نقل کیا ہے۔ ” قال الحسن : لماقام رسول اللہ یقول لا الہ الا اللہ ویدعوا الناس الی ربھم کارت العرب تلبد علیہ جمیعا (حاشیہ فتح البیان ج ١، ص ٩٥)۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوتے، لا الہ الا اللہ کہتے اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے تو اہل عرب ہجوم کرکے پہنچتے اور ایک دوسرے پر چڑھ آتے۔ اصل یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس حالت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جو آغاز اسلام میں آنحضرت اور آپ کے ساتھیوں کی تھی، جب آپ نماز پڑھنے کے لیے قیام فرما ہوتے توا یک جماعت آپ کے جانثاروں کی آپ کے پیچھے صف بستہ کھڑی ہوجاتی اور خشوع اور خضوع اور انقطاع وقنوت کیسا تھ یہ مقدس گروہ ایک ان دیکھی ہستی کے تصور میں بے خودانہ مصروف رکوع وسجود مشغول تسبیح وصفوف ومتابعت امام کی عظمت ورعب سے مبہوت ہوجاتے پھر انہوں نے اپنی شوخی وسرکشی سے اس منظر عبادت کو ایک تماشا سابنالیا اور نماز کے وقت جمع ہوہو کر ہجوم کرنے لگے اور دیکھنے کے شوق میں ایک دوسرے پر ٹوٹنے لگے وہ اکثر تماشا دیکھنے والوں کی طرح بڑھتے بڑھتے اس قدرت قریب آجاتے گویا لپٹ پڑنے کے ارادے سے بڑھ رہے ہیں، پس یہی اصل حقیقت ہے جس کی طرف امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ایک روایت نقل کرکے اشارہ کیا ہے۔