وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا
جو کچھ والدین اور قرابتی چھوڑیں ‘ اس میں ہر کسی کے وارث ہم نے مقرر کردیئے ہیں اور جن سے تم نے اقرار باندھا ہے ان کا حصہ انہیں دو ۔ بےشک ہر شے خدا کے روبرو ہے (ف ١)
28: جب کوئی شخص اسلام لائے اور مسلمانوں میں اس کا کوئی رشتہ دار نہ ہو تو وہ جس شخص کے ہاتھ پر مسلمان ہوا ہے، بعض اوقات اس کے ساتھ یہ عہد کرلیتا تھا کہ وہ دونوں آپس میں بھائی بن گئے ہیں، لہذا وہ ایک دوسرے کے وارث بھی ہوں گے، اور اگر ان میں سے کسی پر کوئی تاوان آپڑا تو دوسرا اس کی ادائیگی میں اس کی مدد کرے گا، اس رشتے کو"موالاۃ" کہا جاتا تھا، یہاں اسی معاہدہ کا ذکر ہے، اور امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک اس آیت کی بنا پر یہی ہے کہ یہ رشتہ اب بھی کسی نومسلم سے قائم ہوسکتا ہے اور اگر دوسرے مسلمان رشتہ دار موجود نہ ہوں تو میراث میں بھی ان کا حصہ ہوگا۔