سورة الأحقاف - آیت 10

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَكَفَرْتُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ بھلا دیکھو تو اگر یہ (قرآن) اللہ کے یہاں سے ہوا اور تم نے اس کو نہ مانا اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ ایک ایسی کتاب (یعنی توراۃ) کی گواہی بھی دے چکا پھر وہ یقین بھی لے آیا اور تم نے تکبر کیا (تو اس صورت میں کیا تم ظالم نہ ہوگئے ؟ ) بےشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٢) آیت ١٠ میں، شاھد من بنی اسرائیل، سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام ہیں جو مدینہ منورہ کے مشہور یہودی عالم تھے اور ہجرت کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے یہ واقعہ چونکہ مدینہ منورہ کا ہے اس لیے بعض مفسرین نے اس آیت کو مدنی قرار دیا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ یہ سورۃ بتمامہ مکی ہے اور شاہد بنی اسرائیل سے مراد کوئی خاص آدمی نہیں ہے بلکہ جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے تصریح کی ہے بنی اسرائیل کا ایک عام آدمی مراد ہے آیت کا منشایہ ہے کہ قرآن مجید کی یہ تعلیم جو تمہارے سامنے پیش کی جارہی ہے یہ کوئی انوکھی چیز نہیں ہے جو دنیا میں پہلی مرتبہ تمہارے ہی سامنے پیش کی گئی ہو بلکہ اس سے پہلے یہی باتیں بنی اسرائیل کے سامنے بھی پیش کی جاچکی ہیں اور ان کے ایک عام آدمی سے پوچھ سکتے ہو وہ اس کی شہادت دے گا۔