سورة فصلت - آیت 35

وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور یہ بات انہیں کو نصیب ہوتی ہے جو صابر ہیں اور یہ بات اس کو ملنی ہے جو بڑا صاحب نصیب ہے

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٨) ایسی صورت میں جب کہ دعوت حق کا مقابلہ ہٹ دھرمی سے ہورہا تھا اور مخالفین نے اخلاق اور انسانیت کی تمام حدیث توڑ دی تھیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں پر ہرقسم کی الزام تراشیاں جاری تھیں ایسے وقت میں ایک بہت بڑا اخلاقی اصول بتایا جس پر عمل کرنے سے بدترین دشمن جگری دوست بن جائیں گے اور وہ ہے برائی کا مقابلہ نیکی اور خوش خلقی سے کیا جائے۔ اور اس پر عمل کو حوصلہ مندی اور صبر وبرداشت قرار دیا جائے نیز بتایا کہ جو لوگ اللہ کے ہاں بلند مرتبہ اور اعلی صفات کے مالک ہیں وہی اس اصول پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں ورنہ یہ ہر وکہ دمہ کا کام نہیں۔ ” قرآن مجید نے صرف یہی نہیں کہا دشمنوں کے شدائد صبر کے ساتھ تحمل کرو یہ بھی کہا، تحمل کرو اور احسان کرو، برائی کو انگیز کرو اور اس کی جزا نیکی کے ساتھ دو کہ حصول امن کا ذریعہ اور کسب صلح وسلام کی تدبیر ہے۔ لیکن یہ عفو وحلم اور تحمل وانگیز کب تک؟ اس وقت تک جب اس شر اور بدی کا اثر شخص واحد تک محدود اور صرف ایک ذات خاص کے منافع خصوصیہ میں محصور ہو (ہیبت اجتماعیہ پراثر انداز ہونے والے جرائم ومعاصی کے لیے فروکو کو حق عفو نہیں دیاجاسکتا) دنیا میں دو چیزیں ہیں اخلاق اور قانون۔ اخلاق کا تعلق انسان کی ذات سے ہے قانون کا تعلق حکومت اور مجتمع انسانی عفو ودرگزر انسان کا بہترین وصف ہے لیکن ہیبت اجتماعیہ میں گناہ عظیم، اجرت آموز جرائم ہے اور برہم کن امن انسانی۔