سورة الزمر - آیت 8

وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِن قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِيلِهِ ۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا ۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب آدمی کو رنج پہنچے تو اپنے رب کو اسی کی طرف رجوع ہوکر پکارتا ہے ۔ پھر جب وہ اسے اپنی طرف سے نعمت بخشتا ہے تو جس مطلب کی طرف پہلے اسے پکارتا تھا ۔ اس مطلب کو بھول جانا ہے ۔ اور اللہ کے لئے شریک ٹھہراتا ہے تاکہ اس کی راہ سے اوروں کو بھی بہکائے تو کہہ تھوڑے دنوں اپنے کفر کے ساتھ فائدہ اٹھالے (اخیر) تو تو دوزخی ہے

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٧) آیت ٨ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ رنج ومصیبت کی حالت میں انسان کے اندروجدانی طور پرولولہ اٹھتا ہے کہ ایک بالاتر ہستی موجود ہے جو میرے دکھ درد کو دور کرسکتی ہے اور اسی کو پکارنا چاہیے لیکن جب مصیبت دور ہوجاتی ہے تو پھر عیش وراحت کی غفلتوں میں پڑ کر اسے بھول جاتا ہے اور دوسروں کو اللہ کے ہمسر بنانے لگ جاتا ہے قرآن مجید نے جابجا اس فطری حالت سے استشہاد کیا ہے کہ انسانی فطرت اپنے اندرونی ادراک میں خدا کی ہستی کا ادراک رکھتی ہے اور عراض وغفلت اور شرک کی حالت وجدانی نہیں بلکہ خارجی اثرات کا نتیجہ ہے۔