سورة يس - آیت 8

إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْلَالًا فَهِيَ إِلَى الْأَذْقَانِ فَهُم مُّقْمَحُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بے شک ان کی گردنوں میں طوق ڈالے ہیں ۔ سو وہ ٹھوڑیوں تک ہے ۔ پھر ان سر الل (یعنی اونچے) ہورہے ہیں

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٢) یعنی طوقوں کی وجہ سے نہ سرنیچے جھکاسکتے ہیں اور نہ ادھر ادھر پھیر سکتے ہیں، اس لیے وہ اپنے سراٹھائے کھڑے ہیں۔ مراد ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔ انسان کے تمام کاموں کی جڑ یقین اور اعتقاد کا استحکام ہے۔ اسی کو شریعت، ایمان، کے لفظ سے تعبیر کرتی ہے خدا کا تصور یاتوانسان کو محبت کی شکل میں اپن طرف کھنچتا ہے یا خوف کی عظمت وہیبت دکھلا کراپنے آگے جھکالیتا ہے لیکن جن کے گلوں میں نفس و شیطان کے طوق پر گئے ہیں ان کی فطرت کو عبودیت الٰہی سے گویا اجنبیت ہوگئی ہے۔