فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ
پھر جب ہم نے اس پر موت کو مقرر کیا توجنوں کو اس کی موت کی خبر کسی نے نہ دی ۔ مگر گھن کے کیڑے نے کہ اس کے عصا کو کھاتا رہا ۔ پس جب وہ گرپڑا توجنوں نے جانا کہ اگر وہ غیب جانتے تو ذلت کے عذاب میں نہ رہتے
(٥) آیت ١١، ١٢ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شیاطین حضرت سلیمان کے تابع تھے جوان کے لیے مختلف خدمات سرانجام دیتے تھے اور ان جنوں کے متعلق مشرکین عرب کا عقیدہ تھا کہ وہ غیب جانتے ہیں مولنا آزاد لکھتے ہیں : ” یہاں پر جنات اور شیاطین سے مراد فلسطین اور شام کی وہ شریر قومیں ہیں جو حضرت سلیمان کے عہد میں مطیع ومنقاد ہوگئی تھیں اور انہوں نے ہیکل کی تعمیر تیرہ برس تک ہر طرح کی سخت خدمتیں سرانجام دی تھیں“۔ مگر قرآن مجید کے الفاظ میں اس کی تاویل کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ہاں یہ تاویل تورات کے مطابق ہے چنانچہ تورات کی کتاب سلاطین اول سے معلوم ہوتا ہے کہ تیس ہزار کالشکر تیرا برس تک کام میں لگے رہے تب کہیں جاکر عمارت تیار ہوئی۔