إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا
ہم نے (ایک) امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی ۔ سو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا ۔ اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا بےیک وہ بڑا بےترس اور بڑا نادان (ف 1) تھا
(١٥) اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جوفطرۃ ہدایت کی قوت ودیعت کی ہے وہ کسی دوسری مخلوق میں نہیں انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے جو بالفعل عدل وعلم کے اوصاف کے ساتھ متصف نہ بھی ہو مگر اس میں عدل وعلم کے ساتھ متصف ہونے کی صلایت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہی اس امانت (خلافت ارضی) کا فریضہ تفویض کیا تاکہ نفاق وبغاوت کی صورت میں اللہ کے غضب اور اطاعت وفرمانبرداری صورت میں اللہ تعالیٰ کے غفران و رحمت کا مظہر بن سکے۔ انسان نے اس بارعظیم کی ذمہ داری تو لے لی، مگر اسے نبھایا نہیں یہی اس کی بڑی بیباکی اور نادانی ہے، یہ بات نوع انسانی کے اکثر افراد کے لحاظ سے فرمائی گئی ہے جنہوں نے اپنی فطرت سلیمہ ذمہ داری قبول کرنے کے تقاضے ٹھکرا دیے۔