سورة الأحزاب - آیت 33

وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو (اپنا بناؤ سنگار) دکھاتی نہ پھرو جیسے زمانہ جاہلیت میں دکھاتے پھرنے کا دستور تھا ۔ اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو ۔ اے گھروالو اللہ یہی چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی دور کرے اور تمہیں خوف صاف کرے (ف 1)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٧) تبرج، کے اصل معنی نمایاں طور پر ظاہر ہونے کے ہیں یہان پر، تبرج جاہلیت سے مراد یہ ہے کہ عورت اس طرح بناؤ سنگھار کرکے نمایاں ہو کر نکلے کہ نظریں اس پر جم کررہ جائیں۔ علماء نے لکھا ہے کہ عورت کا اپنے محاسن کا اس طرح اظہا کرنا دیکھنے والوں کے جنسی جذبات بیدار ہوجائیں، تبرج، میں داخل ہے قبل از اسلام زمانہ جاہلیت میں چست اور نیم عریاں لباس پہن کر، میک اپ کرکے عورتیں نکلا کرتی تھیں قرآن مجید نے اسے جاہلی رسم قرار دیا جسے آج ہم، ثقافت کے نام سے رائج کررہے ہیں۔ یہاں پر آیت ٣٢ میں، ازواج مطہرات، کو اہل بیت کہہ کرپکارا گیا ہماری زبان میں اس کے معنی گھروالوں کے ہیں اور قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کسی مرد کی وجہ کو اہل البیت کہا گیا ہے۔ یوں تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ایک دعا میں علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بھی اپنے اہل بیت میں شامل کیا ہے مگر قرآن میں یہ صرف زوجہ کے لیے استعمال ہوا ہے۔