هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا
وہاں مومنین کا امتحان کیا گیا اور وہ خوب ہلائے گئے
(٥) آیات ٩ تا ٢٧ غزوہ احزاب اور غزوہ بنی قریظہ کے واقعات پر مشتمل ہیں لہذا ان آیات کو سمجھنے کے لیے ان غزوات کی تفصیلات کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ غزوہ احزاب : جنگ احد (٣ ھ) میں چند تیراندازوں کی غلطی کی وجہ سے لشکر اسلام کو جوعارضی شکست کا سامنا کرناپڑا تھا اس کی وجہ سے مخالفین کے حوصلے بلند ہوگئے تھے چنانچہ مدینہ منورہ کی ریاست کو اردگرد سے بہت سے خطرات نے گھیر لیا تھا مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عزم وتدبر اور صحابہ کرام کے جذبہ فداکاری کی وجہ سے حالات کارخ تبدیل ہوگیا۔ اسباب : جب بنی نضیر نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہید کرنے کی کوشش کی تو اس راز کے فاش ہوجانے پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مدینہ سے جلاوطن کردیا اور وہ لوگ خیبر، وادی القری اور شام میں چلے گئے اسی طرح اردگرد کے قبائل کے خطراب کو بھی آپ نے دبادیا، اس طرح سارے عرب میں اسلامی ریاست کارعب بیٹھ گیا اور لوگوں نے سمجھ لیا کہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت بڑے لشکر کی ضرورت ہے ایک دو قبیلے مل کر ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ بنی نضیر کے لیڈر جوجلاوطن ہو کر شام اور خیبر میں چلے گئے تھے انہوں نے سارے عرب میں چکر لگایا اور قریش سمیت بہت سے قبائل کو اس بات پر آمادہ کیا کہ ایک بڑی جمعیت کے ساتھ مدینہ پر حملہ کیا جائے چنانچہ پانچ ہجری میں ایک بہت بڑی جمعیت جس کی تعداد دس بارہ ہزار تھی مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لیے روانہ ہوئی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب معلوم ہوا کہ تمام مخالفین مل کر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہورہے ہیں تو آپ نے مدینہ کے شمال غربی جانب ایک خندق کھدوالی اور کوہ سلع کو پشت پر لے کر تین ہزار فوج کے ساتھ خندق کی آڑ میں مدافعت کے لیے تیار ہوگئے جس کی وجہ سے لشکر کفار کو طویل محاصرہ کے لیے تیار ہوناپڑا، اس اثنا میں کفار نے بنو قریظہ یہودی قبیلے کو غداری پر آمادہ کیا جو مدینہ کے جنوب مشرق میں آباد تھے حالانکہ ان سے مسلمانوں کا حلیفانہ معاہدہ تھا اور اس معاہدہ کی رو سے انہیں مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہیے تھا ادھر منافقین نے لشکر اسلام میں بددلی پھیلانی شروع کردی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب ہی اطلاع ہوئی تو پہلے بنی غطفان سے صلح کی بات چیت کی، مگر جب انہوں نے صلح کے لیے کڑی شرطیں پیش کی تو یہ تدبیر سامنے آئی کہ کسی طرح سے بنو قریظہ اور کفار کے لشکر کے مابین پھوٹ ڈال دی جائے۔ چنانچہ نعیم بن مسعود (رضی اللہ عنہ) کو اس مہم پر مقرر کیا گیا اور وہ کفار سے بنوقریظہ کو علیحدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے اس طرح وہ خطرہ ٹل گیا جو بنوقریظہ کے پیچھے سے حملہ کرنے کی صورت میں نظرآرہا تھا اور کفار پچیس دین کے محاصرہ کے بعد اچانک طوفان باد کی وجہ سے میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ غزوہ خندق سے فارغ ہونے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنوقریظہ پر ان کی غداری کی بنا پر حملہ کردیا اور انہیں محصور کرکے بالآخر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا جس سے بہت ساسامان حرب مسلمانوں کے ہاتھ آیا اور یہودی خطرہ سے ہمیشہ کے لیے مامون ہوگئے آیات میں اسی واقعہ کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے اور منافقین کے کردار پر تنقید کی گئی اور مومنین کے کردار پر ان کی تعریف کی گئی ہے۔