سورة آل عمران - آیت 55

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ میں تجھے کھینچ لینے والا اور اپنی طرف اٹھانے والا اور کافروں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے (ف ١) تابعداروں کو قیامت کے دن تک کافروں کے اوپر رکھوں گا (یعنی وہ غالب رہیں گے) پھر میری طرف تمہیں لوٹنا ہوگا پھر جس میں تم اختلاف رکھتے ہو اس میں تمہارے درمیان فیصلہ کروں گا (ف ٢)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

23: حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مخالفین نے انہیں سولی پر چڑھانے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا اور جو لوگ آپ کو گرفتار کرنے واائے تھے ان میں سے ایک شخص کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہم شکل بنا دیا، اور مخالفین نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دھوکے میں اسے سولی پر چڑھا دیا آیت کا جو ترجمہ یہاں کیا گیا ہے وہ عربی لفظ ” توفی“ کے لغوی معنی پر مبنی ہے، اور مفسرین کی ایک بڑی جماعت نے یہاں یہی معنی مراد لیے ہیں۔ اس لفظ کی ایک اور تشریح بھی ممکن ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی مروی ہے۔ اس کے لیے ملاحظہ ہو معارف القرآن ص :74 ج :2۔ 24: یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ماننے والے (خواہ انہیں صحیح طور پر مانتے ہوں جیسے مسلمان، یا غلو کے ساتھ مانتے ہوں، جیسے عیسائی ان کے مخالفین پر ہمیشہ غالب رہیں گے۔ چنانچہ تاریخ میں یسا ہی ہوتا رہا ہے، البتہ صدیوں کی تاریخ میں اگر کچھ مختصر عرصے کے لیے جزوی طور پر کہیں ان کے مخالفین کا غلبہ ہوگیا ہو تو وہ اس کے منافی نہیں ہے۔