سورة الشعراء - آیت 160

كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ الْمُرْسَلِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

قوم لوط نے رسولوں کو جھٹلایا

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٩) حضرت لوط (علیہ السلام) کی دعوت اور باشندگان سدوم کی ہلاکت : توراۃ میں ہے کہ حضرت لوط حضرت ابراہیم علیہما السلام کے بھتیجے اور حاران کے بیٹے تھے، یہ حضرت ابراہیم کے ساتھ شہر، اُور، سے آئے اور سدوم میں مقیم ہوگئے، جو دریائے اردن کی ترائی میں واقع تھا، یہ سدوم، ادمہ، عمورہ، ضغر کا علاقہ فلسطین کاسب سے شاداب علاقہ تھا جواب بحیرہ مردار میں غرق ہے اور اسے بائبل میں، وادی سدیم، کا نام دیا گیا ہے اہل سدوم خوشحالی اور رفاہیت میں مست ہو کر فطرت کے حدود توڑ کر بہت دور نکل گئے اور ان میں امرد پرستی نے ایک فیشن کی حیثیت اختیار کرلی، حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں اس برائی پر متنبہ کیا مگر انہوں نے پروا نہ کی۔ بالاآخر حضرت لوط کو انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر اس قسم کے مواعظ سے باز نہ آئے تو ملک بدر کردیے جاؤ گے حضرت لوط نے بھی دھمکی کا جواب برملا اظہار نفرت سے دیا اور کہا کہ میں تنہا نہیں بلکہ ہر سلیم الفطرت آدمی اس فعل سے بے زاری کا اظہار کرے گا حضرت لوط (علیہ السلام) نے اندازہ کرلیا کہ اب ان پر عذاب کی گھڑی قریب آچکی ہے چنانچہ انہوں نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیے نجات کی دعا کی، عذاب آیا اور وہ پتھروں کی بارش سے ہلاک ہوگئے، تورات میں ہے کہ سدوم اور عمورہ پرآگ اور گندھک کی بارش ہوئی، قرآن میں ہے کہ پتھر گرے، دونوں بیانوں کے جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی حالت پیش آئی ہوگی جیسے آتش فشاں پہاڑوں کے پھٹنے سے واقع ہوتی ہے، چنانچہ بحیرہ مردار کے جنوب مشرق میں جو ویران علاقہ نظر آتا ہے اس میں موجود کھنڈروں سے پتہ چلتا ہے کہ کسی زمانہ میں یہ علاقہ نہایت شاداب اور آباد تھا، آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس علاقہ کی آبادی وخوشحالی کا دور ٣٠٠ ق م سے ١٩٠٠ ق م تک رہا ہے اور اسی دور میں تقریبا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہوئے اس علاقہ میں نفط اور اسفالٹ کے گڑھے تھے طبقات الارض کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ زلزلے کے (جسے قرآن میں الصحیۃ کہا گیا ہے) کے ساتھ پٹرول، گیس اور اسفالٹ بھڑک اٹھے اور سارا علاقہ دلدل سا بن گیا خود بائبل میں اس کی تفصیل ملتی ہے مولانا آزاد نے ترجمان القرآن حصہ دوم میں بھی کچھ اشارات کیے ہیں۔ (١٠) قبیلہ مدین میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دعوت کا ظہور ہوا : (الف) تورات میں ہے کہ قطورا کے بطن سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے چھ لڑکے ہوئے جن میں سے ایک کا نام مدیان تھا، یہی مدیان عربی میں مدین ہوگیا اس کی اولاد بحرقلزم کے کنارے آباد ہوگئی تھی جن میں حضرت شعیب کا ظہور ہوا بنی اسرائیل انہیں بنی قطورا کہتے تھے بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اصحاب الایکہ اور اصحاب مدین ایک ہی قبیلہ کے دونام ہیں اور بعض نے ان کو الگ الگ دو قبیلے قرار دیا ہے دراصل یہ دوالگ قبیلے ہیں مگر ایک ہی نسل کی دو شاخیں ہیں، اصحاب مدین کی آبادی شمالی حجاز سے فلسطین کے جنوب تک، وہاں سے جزیرہ ونما سینا کے آخری گوشے تک بحر قلزم اور خلیف عقبہ کے سوا حل پر پھیل گئی، ان کا صدر مقام شہر مدین تھا، بنوقطورا کی دوسری شاخ شمالی عرب میں تیما تبوک اور العلاء کے درمیان آباد ہوئی اور ان کا صدر مقام تبوک تھا اسی تبوک کا قدیم نام ایکہ ہے ان کی طرف بھی حضرت شعیب (علیہ السلام) ہی مبعوث تھے۔ ان میں تجارتی بدعنوانیاں نمایاں تھیں اور دیگر اخلاقی بیماریوں میں بھی مبتلا تھے۔ (ب) مدین کا جائے وقوع : یہ جگہ شام، افریقہ اور عرب کے تجارتی قافلوں کا نقطہ اتصال تھی، اس لیے اشیائے تجارت کے تبادلہ کی بڑی منڈی بن گئی تھی اور یہ لوگ بہت خوشحال ہوگئے تھے۔ لیکن جب ان کے اخلاق فاسد ہوگئے تو کاروبار میں خیانت کرنے لگے اور ماپ تول کے انصاف سے ناآشنا ہوگئے اور پھر تجارتی شاہر اہ پر واقع ہونے کی وجہ سے انہوں نے بڑے پیمانے پر راہزنی کاسلسلہ جاری کررکھا تھا اور بیرونی تجارتی قافلوں کو بھاری خراج کے بغیر نہ گزرنے دیتے تھے اصحاب الایکہ کے متعلق سورۃ الاعراف میں ہے، ولاتقعدوا بکل صراط توعدون۔ یعنی لوگوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے راستوں کی ناکہ بندی نہ کرو، یہی وجہ ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انہیں خصوصیت کے ساتھ ان دونوں قسم کی معصیت سے روکا۔ (ج) بائبل میں ہے کہ یہ لوگ، بعل فعور، کی پوجا کرتے تھے اور بنی اسرائیل جب مصر کے علاقہ سے نکل کر ان کے علاقہ سے گزرے تو ان کے اندر بھی انہوں نے شرک اور بت پرستی پھیلا دی، سورۃ ہود آیت ٨٧ میں ہے کہ انہوں نے حضرت شعیب کو جواب دیا کہ تمہاری نمازیں یہ بھی حکم دیتی ہیں کہ ہمیں اس راہ سے ہٹاؤ جس پر ہمارے باپ دادا چلتے آئے ہیں؟ یا ہم اپنے اموال میں آزادی سے جیسے چاہیں تصرف نہ کریں؟ معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا میں تم ہی ایک نیک اور خوش معاملہ آدمی رہ گئے ہو۔ (د) بالآخر انہوں نے ہٹ دھرمی سے کام لیا اور حضرت شعیب سے عذاب کا مطالبہ کرنے لگے اور کہا، فاسقط علینا کسفا من السماء۔ کہ ہم پر آسمان سے ٹکڑے گرادیجئے۔ اس طرح انہوں نے حضرت شعیب کی تکذیب کی، اس پر ان کو سائبان والے دن کے عذاب نے آپکڑا یعنی ان پرایک بادل چھایا رہا، دوسری جگہ، الرجفہ، اور ایک آیت میں، فاخذتھم الصیحہ، آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عذاب ان پر سائبان کی طرح چھایارہا، گویاپہلے، الصیحہ، یعنی دھماکہ ہوا اور پھر اس نے الرجفہ یعنی زلزلے کی شکل اختیار کرلی، واللہ اعلم۔