سورة النور - آیت 55

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کئے اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ضرور انہیں زمین میں حاکم بنائے گا جیسے ان لوگوں کو حاکم بنایا تھا ، جو ان سے پہلے ہو گزرے ہیں اور ان کا دین جو اس نے ان کیلئے پسند کیا ہے ان کے واسطے محکم کرے گا اور ان کے خوف کے بعد انہیں امن بدل دیگا ، وہ میری عبادت کرینگے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے ، اور جو کوئی اس کے بعد کافر ہوگا ، سو وہی لوگ نافرمان ہیں (ف ٢) ۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٤٢) آیت ٥٥ میں جن اہل ایمان سے خلافت کا وعدہ کیا ہے اس کے مخاطب وہ مسلمان ہیں جو شرک سے پاک ہو کر خالص اللہ کی بندگی کرنے والے ہوں پسندیدہ دین کے متبع ہوں اور اخلاق واعمال کے اعتبار سے صالح ہوں نہ کہ منافق اور فسق وفجور کے مرتکب جو مذکورہ بالاصفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کا دعوی کرنے والے ہیں اس کے مخاطب صحابہ کرام ہیں اور بلاشبہ یہ وعدہ خلفائے اربعہ کے دور میں پورا ہوا اور دنیا نے اس عظیم الشان پیشن گوئی کو حرف بحرف پورا ہوتے دیکھ لیا۔ اس آیت سے خلفائے اربعہ کی فضیلت ومنقبت ثابت ہوتی ہے عہد نبوت سے لے کر عہد عثمانی تک جو فتوحات ہوئی ہیں علمائے تاریخ نے ان کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جو اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ ان کی خلافت برحق تھی اور وعدہ خداوندی کے تحت عمل میں آئی تھی پھر جو لوگ ان تاریخی حقائق سے آنکھیں بند کرکے خلفائے اربعہ کی خلافت اور ان کے فض (رح) وشرف سے منکر ہیں ان کے متعلق ہم اس کے سوا کیا کرسکتے ہیں کہ، ومن یکفر بعد ذالک فاولئک ھم الفاسقون۔ مولانا آزاد اس آیت کے تحت کے لکھتے ہیں، نماز اسلام کی ایک عبادت ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ منہ کعبے کی طف ہو، مگر اسوہ ابراہیمی اسلام کی حقیقت ہے اس کے لیے صرف کعبے کی طرف منہ کردینا کافی نہیں بلکہ بانی کعبہ کی طرح دل کو پھیردینا شرط ہے وہ نماز کا ایک رکن ہے کہ عبادت ہے یہ اسلام کی ایک شرط ہے کہ اصل حقیقت ہے۔ ملۃ ابیکم ابراہیم۔ حضرت ابراہیم کی نسبت کواسی لیے یاد دلایا گیا ہے کہ ان کی زندگی اسلام کی حقیقت کا نمونہ تھی انہوں نے اپنی قربانی کا اسوہ دکھا کر اسلام کی حقیقت ظاہر کردی تھی جہاد فی سبیل اللہ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، قیام صلوۃ واعلان حق اسی قربانی سے عبارت ہیں۔ اور جب تک ایک قوم اس قربانی کے لیے تیار نہ ہو وہ سعادت عالم وعالمیان کا ذریعہ نہیں بن سکتی، مشہور آیت استخلاف نے جس کا وعدہ الٰہی کی صورت میں اعلان ہوا پھر نصف صدی کے اندر ہی نصرت الٰہیہ نے اس کی تکمیل بھی کردی اس مبحث کے لیے ایک آخری فیصلہ کن بصیرت بخش دی ہے۔