سورة النور - آیت 43

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِيهَا مِن بَرَدٍ فَيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَن مَّن يَشَاءُ ۖ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کیا تونے نہ دیکھا ، کہ اللہ بادل ہانک لاتا ہے ، پھر انہیں اکٹھے کرتا ، پھر تہ بہ تہ کرتا ہے ، پھر تو دیکھتا ہے کہ ان بادلوں کے درمیان سے مینہ نکلتا ہے ، اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں سے جو آسمان میں ہیں اولے اتارتا ہے ، پھر وہ اولے جس پر چاہتا ہے ڈالتا ہے ، اور جس سے چاہتا ہے روک لیتا ہے ، قریب ہے کہ اس کی بجلی کی چمک آنکھیں لے جائے (ف ١) ۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٣٠) یزجی سحابا۔۔۔ از جاء۔ کے معنی کسی چیز کو آہستہ آہستہ چلانے کے ہیں۔ الازجاء۔ السوق قلیلا قلیلا۔ انی اتیتک من اھلی ومن وطنی، ازجی حشاشہ نفس بانھا رمق۔ چونکہ بادل کی چادریں آہستہ آہستہ آتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اس لیے بلاغت چاہتی تھی کہ اسی لفظ سے اسے تعبیر کیا جائے افسوس ہے کہ اردوفارسی کے مترجموں نے الفاظ کی لغوی خصوصیات کی بہت کم رعایت کی ہے چنانچہ اسکاترجمہ بھی محض رواں کردن، اور چلانا، اور ہنکانا، کیا ہے اور اس طرح اصل لفظ کی لغوی خصوصیت گم ہوگئی ہے۔ (٣٠) یزجی سحابا۔۔۔ از جاء۔ کے معنی کسی چیز کو آہستہ آہستہ چلانے کے ہیں۔ الازجاء۔ السوق قلیلا قلیلا۔ انی اتیتک من اھلی ومن وطنی، ازجی حشاشہ نفس بانھا رمق۔ چونکہ بادل کی چادریں آہستہ آہستہ آتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اس لیے بلاغت چاہتی تھی کہ اسی لفظ سے اسے تعبیر کیا جائے افسوس ہے کہ اردوفارسی کے مترجموں نے الفاظ کی لغوی خصوصیات کی بہت کم رعایت کی ہے چنانچہ اسکاترجمہ بھی محض رواں کردن، اور چلانا، اور ہنکانا، کیا ہے اور اس طرح اصل لفظ کی لغوی خصوصیت گم ہوگئی ہے۔ (٣١)۔ آیت میں، یجعلہ رکاما، کے لفظ ہیں۔ اور رکم، کے معنی ہیں چیزوں کا تہ درتہ ہوجانا اور مل جل کر ایک ہوجانا، دونوں مفہوم شامل ہیں۔ یقال : رکم الشئی یرکمہ رکما، ای جمعہ والقی بعضہ علی بعض، والرکمۃ الطین المجموع (ابن سیدہ)۔ (٣٢(۔ قال الاخفش : ان من فی من جبال، وفی، من برد، زائدہ، والجبال والبرد فی موضع نصب، ای ینزل من السماء بردایکون کالجبال (کشاف)۔ (٣٣)۔ آیت ٤٣ میں وہ استدلال ہے جسے ہم نے اپنی جدیدہ تدوینات میں، برہان ربوبیت، سے تعبیر کیا ہے اور یہاں خصوصیت کے ساتھ اس حقیقت پر توجہ دلائی ہے جسے ہم نظام ربوبیت کے عنوان سے تفسیر سورۃ فاتحہ میں لکھ چکے ہیں ضروری ہے کہ اس موقع پر اس مبحث کا مطالعہ تازہ کرلیاجائے۔