سورة النور - آیت 39

وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ ۗ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جو لوگ کافر ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے میدان میں ریت ، پیاسا اسے پانی سمجھے ، یہاں تک کہ جب اس کے پاس آیا تو اسے کچھ نہ پایا ، اور اس کے پاس خدا کو پایا ، پھر اس کو اس کا پورا حساب دیا ، اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے (ف ١) ۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٢٦) اسراب، مایری فی المفاوزمن لمعان الشمس عنداشتداد حر النھار علی صورۃ الماء وسمی سرابا لانہ یسرب، ای یجری کالماء۔ آیت ٥٣، ٨٣ میں سمجھایا گیا ہے کہ دنیا میں جو بھی ظاہری یا باطنی روشنی پائی جاتی ہے سب اسی کے نور سے مستفاد ہے اور تمام چیزوں کی نمود اسی کے نور سے ہے حتی کہ ہدایت وضلالت کا مدار بھی اللہ کے نور سے مستفیض ہونے اور نہ ہونے پر ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تو ہی آسمان اور زمین کو اجالابخشنے والا ہے اور میرے اعضاء کان، آنکھ، دل اور ہر ہر عضو کو اپنے نور سے منور کردے اور میرے نور کو بڑھا دے، امام غزالی نے اپنے رسالہ، مشکوۃ الانوار میں اس کی خوب تشریح کی ہے نور اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور صفات الٰہی کی کیفیت کو سمجھنا انسانی ادراک سے بالا ہے آگے فرمایا کہ یہ روشنی مسجدوں کے ساتھ خصوصی تعلق سے حاصل ہوتی ہے اس لیے مساجد کی تعظیم وتطہیر کا حکم دیا اور ان میں صبح وشام کے اوقات میں اللہ کو یاد کیا جائے اور جو لوگ مساجد کی تعظیم بجالاتے ہیں اور ان میں صبح وشام کے اوقات میں اس کا ذکر کرتے ہیں ان کے دل ہمیشہ ذکر الٰہی سے منور رہتے ہیں اور دنیا میں معاش کی طلب، ذکر الٰہی سے غافل نہیں کرتی، یہی شان صحابہ کرام کی تھی جن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ہے اور انسان کے دل میں یہ صفت اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جو مذکورہ اعمال کا پابند ہو اور ہرآن یوم حساب کا خوف اس پر طاری رہے۔ (٢٧)۔ قرآن کریم میں ہر جگہ اللہ نے ان لوگوں کے اعمال کو جن کے اغراض ومقاصد مرضیات الٰہی کی خواہش اور نور صداقت وحق پژدہی سے خالی ہیں ہمیشہ ان چیزوں سے تشبیہ دی ہے جو اپنے اندر کامیابی کا کوئی نہ کوئی ہنگامی اثر وجلوہ ضرور رکھتی ہے لیکن آخر میں ان کی ناکامی نمایاں ہوجاتی ہے اس آیت میں اعمال ضلالت کی مثال اس شخص کی سی بتلائی جو پیاسا ہو مگر دریا کی جگہ ریگستان کو سمندر سمجھ کر اس کی طرف دوڑے، بالاآخر اسے ناکامی اور نامرادی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو۔ ؎ ١۔ الہلال، ٤ جون ١٩١٣ ص ٦ پر آیت ٦٣ کاترجمہ یوں کیا ہے۔ اور جو لوگ منکر ہیں ان کے کام ایسے ہیں جیسے چٹیل میدان میں ریت کاپیاسا دور سے اسے پانی سمجھ کر دوڑتا ہے مگر جب اس کے پاس آتا ہے تو کچھ بھی نہیں پاتا اس نے پایاتو اللہ کو اپنے قریب پایا جس نے اس کا حساب چکادیا اور اللہ بہت جلدی حساب کردینے والا ہے۔