اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اللہ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق جس میں چراغ ہو ، اور چراغ شیشہ میں دھرا ہو ، شیشہ گویا چمکتا تارا ہے ، (وہ چراغ) اس مبارک درخت زیتون سے جلایا جائے ، جو نہ شرقی ہے ، نہ غربی ، قریب ہے کہ اس کا تیل روشنی دے ، اگرچہ اسے آگ نہ بھی چھوئے ، روشنی پر روشنی ہے جسے چاہے اللہ اپنے نور کی راہ بتا دے ، اور اللہ آدمیوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر شئے کو جانتا ہے (ف ١) ۔
(٢٣)، روشنی کا قدیم طریقہ یہ تھا کہ چراغ جلاکر طاق میں رکھ دیتے تھے جو دیوار میں اس غرض سے بنایا جاتا تھا کہ اور اب بھی بنایا جاتا ہے لیکن بادشاہوں اور امیروں کے یہاں قندیلیں بھی لٹکائی جاتی تھیں چنانچہ بابل، مصر روم، اور شام کی بے شمار پرانی قندیلیں عجائب خانوں میں موجود ہیں، عربی میں مشکوۃ کے لغوی معنی تو ظرف کے ہیں جس میں کوئی چیز رکھی جائے، اصل المشکوۃ الوعاء یجعل فیہ شئی (ابن سیدۃ)۔ لیکن پھر اس کا اطلاق اس طاق پر بھی ہونے لگا جس میں چراغ رکھا جائے اور قندیل پر بھی جو لٹکائی جائے پس یہاں مشکوۃ سے مقصوددونوں صورتیں ہوسکتی ہیں ہم نے مجاہد رحمہ اللہ کی تفسیر کو ترجیح دی اور قندیل ترجمہ کیا ہے کیوں کہ تمثیل کا مقتضا اجزائے تمثیل کا زیادہ سے زیادہ حسن وتوافق چاہتا ہے اور اس کے لیے قندیل ہی زیادہ موزوں ہے۔ (٢٤) آیت ٣٥ کے تحت مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے مولاناآزاد لکھتے ہیں : روشنی کے تم بھی متلاشی ہو اور میں بھی اس لحاظ سے ہم دونوں کا مطلوب ومقصود ایک ہی ہے لیکن پھر مجھ میں اور تم میں اختلاف حال کا ایک سمندر حائل ہے تم دوڑتے ہو کہ غیروں کے ٹمٹاتے ہوئے چراغوں سے اپنا چراغ روشن کرو، میں پوچھتاہوں کہ تمہاری شمع کیا ہوئی جسکی روشنی سے تمہارے گھر کا کونا کونا منور تھا؟ اس شمع کو کیوں روشن نہیں کرتے یہ کیسی بدبختی ہے کہ جن کے پاس کافوری شمعیں ہیں وہ کسی جھون پر کے دیے کو نظر حسرت سے دیکھیں اسلام آخری دین الٰہی تھا جس نے نہ صرف احکام شریعت ہی میں بلکہ حیات قوی کو ہرشاخ میں ہمیں سب سے آخری اور سب سے بہتر اصول دیے دنیا خواہ کتنی ہی بدل جائے لیکن آزمایاجاسکتا ہے کہ ان اصولوں کی صداقت کو بدلنے کی ضرورت نہیں۔ ؎ ١۔ الہلال ٣٠ جولائی ١٩١٣ ص ٨ اس آیت کاترجمہ یوں کیا ہے۔ اللہ ہی کے نور سے آسمان اور زمین کی روشنی ہے اس کے نور کی مثال ایسی سمجھو جیسے ایک طاق میں چراغ اور چراغ بلور کی قندیل میں، قندیل اس قدر صاف شفاف ہے گویاموتی کی طرح چمکتا ہوا ایک درخشندہ ستارہ۔ پھر اس چراغ کی روشنی ایک ایسے شجرہ مبارکہ زیتون کے تیل سے ہے جو نہ مغربی ہے اور مشرقی، اس کے تیل میں ایک عجیب خاصیت ہے کہ اپنے مشتعل ہونے میں وہ آگ کا محتاج نہیں، آگ اسے نہ بھی چھوئے تاہم وہ آپ سے آپ جل اٹھے گا، اس کے نور کا حال کیا کہا جائے وہ نور علی نور ہے۔ اور اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے اپنے نور کی طرف ہدایت بخش دے چراغ کا بیان دراصل ایک مثال تھی اور اللہ لوگوں کو سمجھانے کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر شے کی حالت سے واقف ہے۔