سورة النور - آیت 11

إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُم مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جنہوں نے طوفان اٹھایا ہے وہ تمہیں میں سے ایک جماعت ہے ، اس تہمت کو تم اپنے حق میں برا نہ سمجھو ، بلکہ یہ تمہارے لئے بہتر ہے ، ان میں سے ہر آدمی کے لئے اس کا کمایا ہوا گناہ ہے ، اور جس نے ان میں سے اس تمہت کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کے لئے عذاب عظیم ہے ۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٧) آیت ١١۔ اور اسکے بعد کی آیات میں وقت کے ایک خاص معاملے کی طرف اشارہ کیا ہے یعنی اس بہتان کی طرف جو منافقوں نے حضرت عائشہ پر لگانا چاہا اور نامراد رہے تھے یہاں چونکہ الزام تراشی کو، افک، سے تعبیر کیا ہے اس لیے سیرت کی روایات میں اسی لفظ سے یہ واقعہ مشہور ہوگیا۔ آیت میں افک کا لفظ آیا ہے، وھو ماخوذ من افک الشئی اذا قلبہ عن وجھہ فالافک ھوالحدیث المقلوب۔ افک کے معنی بات کے الٹ پھیر کردینے کے ہیں۔ پس صرف بہتان کا لفظ اس لیے کافی نہیں ہوسکتا بعض اردو مترجموں نے اس کاترجمہ، طوفان اٹھانا، کیا ہے لیکن یہ ترکیب تو یہاں اور بھی غلط ہے۔ (٨) اس بہتان کا چرچا پھیلانے کے لیی بعض شریروں نے اپنا ایک جتھا بنالیا تھا (عصبۃ منکم) میں اسی طرف اشارہ ہے۔ (والعصبۃ الجماعۃ الذین یتعصب بعضھم لبعض)، پس اردو میں اس کاترجمہ محض، گروہ، اور جماعت نہیں ہوسکتا۔ جماعت خود قرآن بھی بول سکتا تھا۔ مگر اس نے جماعت اور عصبہ کافرق ملحوظ رکھا ہے۔ لہذا ہم نے یہاں جتھے کے لفظ کو ترجیح دی۔ کیونکہ اردو بول چال میں ایسے سازشی گروہوں کو جوگروہ بندی کی غرض سے بنا کرتے ہیں اسی لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ آیات ١٢ تا ٢٢ حضرت عائشہ کی برات کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہیں اور واقعہ قصہ افک کے نام سے معروف ہے ان آیات کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے اس واقعہ کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے اس لیے یہاں پر ہم اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی مہم پر جاتے تو قرعہ اندازی سے فیصلہ فرماتے کہ آپ کی بیویوں میں سے کون آپ کے ساتھ جائے چنانچہ، غزوہ بنی المصطلق، کی مہم کے موقع پر قرعہ میرے نام کا نکلا اور میں آپ کے ساتھ چلی گئی واپس پر جب ہم نے مدینہ کے قریب ایک مقام پر پڑاؤ کیا اور رات کے آخری حصہ میں جب لشکر نے کوچ کی تیاری شروع کی تو میں رفع حاجت کے لیے باہر چلی گئی اور جب پلتنے لگی تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے گلے کا ہار ٹوٹ کر کہیں گرگیا ہے میں اس کی تلاش میں (رح) لگ گئی اور قافلہ روانہ ہوگیا اور محافظوں نے میرا ہودج اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا میں جب ہار لے کر پلٹی تو دیکھا کہ قافلہ روانہ ہوگیا ہے اور میرا ہودج اونٹ پر چلا گیا ہے میں ناچار کپڑا اوڑھ کر وہیں لیٹ گئی اور سوچا کہ آگے چل کر جب مجھے نہ پائیں گے تو میری تلاش میں خود ہی واپس آجائیں گے اسی حالت میں مجھے نیند آگئی صبح کے وقت صفوان بن معطل سلمی (رض) وہاں سے گزرے اور مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے کیونکہ نزول حجاب سے قبل وہ بارہا مجھے دیکھ چکے تھے انہوں نے اپنا اونٹ روک لیا اور لاکر میرے پاس بٹھا دیا میں اونٹ پر سوار ہوگئی اور وہ نکیل پکڑ کر روانہ ہوگئے اور دوپہر کے وقت قافلہ قیام کررہا تھا کہ ہم وہاں پہنچ گئے۔ اس پر ابن ابی منافق اور اس کے ساتھیوں نے مجھ پر تہمت لگائی۔ اس بہتان کی خبریں اڑیں اور نبی کے کانوں تک بھی پہنچ گئی اور آپ پریشان ہوگئے اور افواہوں کایہ سلسلہ ایک مہینے تک جاری رہا اور اس میں منافقین کے علاوہ مسطح، حسان بن ثابت شاعر اور حمنہ بنت جحش (حضرت زینب کی بہن) کے نام بھی مذکور ہیں۔ اوس وخزرج کے لوگ انتشار وافتراق کا شکا ہوگئے اس پر اللہ تعالیٰ نے میری برات کا اعلان فرمایا گو میں اپنے متعلق یہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ وحی کے ذریعے سے میری بات کا اعلان ہوگا جو قیامت تک پڑھی جائے گی۔ اس واقعہ کے تحت مولانا آزاد نے ایک اصولی مبحث کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ” جنگ کا زمانہ پر آشوب بالخصوص فن روایت کے اختلال وبے اثری کا ایک ایسا عہد مشوم ہوتا ہے جب تاریخ وقائع نگاری کی حقیقت بالکل معدوم ہوجاتی ہیی۔ نفس انسانی کی کمزوریاں پوری طرح کام کرنے لگتی ہیں اور فن روایت اس عہد میں آکر بالکل بے کار رہ جاتا ہے۔ محدثین اسلام نے اگرچہ ان روایتوں کے متعلق کوئی جدید قاعدہ وضع نہیں کیا بلکہ جرح وتعدیل کے جو عام اصول ہیں، انہی کو ان روایتوں کا بھی معیار بنایا ہے لیکن قرآن مجید نے ان روایوں کی طرف خاص اعتنا کیا ہے اور ان کے قبول کرنے سے جابجا ممانعت کی ہے۔ جن روایتوں میں کسی فریق کے بغض وانتقام کی علایہ جھلک نظر آتی ہے ان کے متعلق قرآن نے عام حکم دے دیا کہ ان روایتوں کی تحقیق کی ضرورت ہی نہیں۔ اس قسم کے موقعوں پر روایوں کی ثقاہت وعدم ثقاہت سے کوئی بحث نہیں کرنی چاہیے بلکہ سننے کے ساتھ ہی شدت سے انکار ردینا چاہیے چنانچہ منافقین نے حضرت عائشہ کو متہم کیا اور نبی نے مختلف ذرائع سے اس کی تحقیق کی جب اس پر بھی تسکین نہ ہوئی تو ایک مہینے تک وحی کا انتظار کیا اس وقت اللہ نے حضرت عائشہ کی برات میں دس آیتیں نازل فرمائیں۔ ایک آیت یعنی ١٢ میں اس روایت کی تحقیق پر اظہار عتاب بھی فرمایا جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ایک فریق کی خباثت اخلاق اور دوسرے کی طہارت کا اثر بھی روایتوں پر پڑتا ہے چونکہ زمانہ جنگ میں اس قسم کے خبیثانہ اخلاق کے نتائج کا ظہور عموما ہوتا رہتا ہے اس لیے اس قسم کی روایتوں کے متعلق کسی تحقیق وتفتیش کی ضرورت ہی نہیں۔ اصلا اس پر کان ہی نہیں دھرنا چاہے۔ (٩) اس واقعہ کی وجہ سے بہت سے لوگوں ک اکردار ابھر کرسامنے آگیا۔ بداندیش لوگوں کی نشاندہی ہوئی، معاشرتی اصلاح کے لیے قوانین وضوابط نازل ہوئے ور مسلمان کو ایسی ہدایات سے نوازا گیا جن پر عمل کرکے ایک مسلم معاشرے کو ہمیشہ کے لیے برائیوں کی پیدوار سے محفوظ رکھا اور فحاشی کو روکا جاسکتا ہے۔ اس بنا پر قرآن نے مسلمانوں کی تسلی اور تشفی کے لیے فرمایا کہ گوبظاہر یہ واقعہ بڑا شرمناک ہے لیکن اس سے نقصان کے بجائے فوائد ہی حاصل ہوں گے۔ (١٠) آیت میں ” والذی تولی کبرہ“ میں اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف ہے جو اس جتھے کاسرغنہ تھا اس کی سب سے بڑی خباثت یہی تھی کہ لوگوں کو ابھارتا اور دوسروں سے اس کی اشاعت کرواتا اس بنا پر اسے سزا بھی سب سے بڑھ کر ملے گی۔ اور آیت نمبر ١٦ میں نصیحت فرمائی کہ اول تو دوسرے مسلمان کے متعلق دل میں بدظنی نہیں آنی چاہیے اور اگر دل میں ایسا خیال آ بھی جائے توایسی ناپاک بات زبان پر نہ لائی جائے اور صاف کہہ دے کہ یہ بہتان عظیم ہے۔