لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
خیرات ان محتاجوں کے لئے ہے جو خدا کی راہ میں رکے پڑے ہیں ، ملک میں چل پھر نہیں سکتے ، بےخبر آدمی ان کی بےسوالی کے سبب ان کو غنی گمان کرتا ہے تو ان کو ان کے چہروں سے پہچانے گا وہ آدمیوں سے (ف ٣) لپٹ کر سوال نہیں کرتے اور جو کچھ تم خرچ کرو گے خدا کو وہ خوب معلوم ہے ۔
183: حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ یہ آیت اصحاب صفہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ وہ صحابہ تھے جنہوں نے اپنی زندگی علم دین حاصل کرنے کے لئے وقف کردی تھی اور آنحضرتﷺ کے پاس مسجد نبوی سے متصل ایک چبوترے پر آپڑے تھے، طلب علم کی وجہ سے وہ کوئی معاشی مشغلہ اختیار نہیں کرسکتے تھے مگر مفلسی کی سختیاں ہنسی خوشی برداشت کرتے تھے کسی سے مانگنے کا سوال نہیں تھا، اس آیت نے بتایا کہ ایسے لوگ امداد کے زیادہ مستحق ہیں جو ایک نیک مقصد سے پوری امت کے فائدے کے لئے مقید ہو کر رہ گئے ہیں اور سختیاں جھیلنے کے باوجود اپنی ضرورت کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرتے۔ آیت نمبر 261 سے 274 تک صدقات کی فضیلت اور اس کے احکام بیان ہوئے تھے۔ آگے آیت نمبر 280 تک اس کی ضد یعنی سود کا بیان ہے۔ صدقات انسان کے جذبہ سخاوت کی نشانی ہیں، اور سود بخل اور مال کی محبت کی علامت ہے۔