سورة البقرة - آیت 264

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مومنو ! احسان جتا کر اور ایذا (ف ٣) کر اپنی خیرات کو ضائع نہ کرو ، جیسے وہ جو اپنا مال لوگوں کے دکھلانے کو خرچ کرتا ہے اور خدا پر ایمان نہیں رکھتا ، سو اس کی مثال اس صاف پتھر کی مانند ہے جس پر کچھ مٹی پڑی ہو پھر اس پر موسلادھار پانی برسے اور وہ اس کو صاف کر چھوڑے (ریاکار) اپنی کمائی پر کچھ اختیار نہیں رکھتے ، اور خدا منکروں کو ہدایت نہیں کرتا ۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

180: چٹان پر اگر مٹی جمی ہو تو یہ امید ہوسکتی ہے کہ اس پر کوئی چیز کاشت کرلی جائے ؛ لیکن اگر بارش مٹی کو بہالے جائے تو چٹان کے چکنے پتھر کاشت کے قابل نہیں رہتے، اسی طرح صدقہ خیرات سے آخرت کے ثواب کی امید ہوتی ہے ؛ لیکن اگر اس کے ساتھ ریا کاری یا احسان جتانے کی خرابی لگ جائے تو وہ صدقے کو بہالے جاتی ہے اور ثواب کی کوئی امید نہیں رہتی۔