فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ
پھر جس نے سوا ان عورتوں کے کچھ اور چاہا تو وہی حد سے بڑھنے والے ہیں ۔
آیت (٧) سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک اتحاد تناسلی کا جائز طریقہ صرف ایک ہی ہے اور وہ ازدواج کا طریقہ ہے اس کے علاوہ جو طریقہ بھی اختیار کیا جائے گا ناجائز ہوگا۔ خواہ کسی شکل اور کسی نوعیت کا ہو۔ تمام دنیا کی طرح عرب میں بھی غلامی کی رسم جاری تھی اور لونڈی غلاموں کے معاملہ کو ملک یمین سے تعبیر کرتے تھے۔ یعنی کسی چیز پر قابض ہوجانے سے، یہاں فرمایا وہ زنا شوی کا علاقہ بجز منکوحہ عورتوں کے اور کسی سے نہیں رکھتے۔ ان کی بیبیاں ہوں جو سوسائٹی کے آزاد افراد میں سے ہیں۔ یا لونڈیاں ہوں جو ان کے نکاح میں آگئی ہیں۔ چونکہ وقت کی سوسائٹی میں آزاد اور غلام افراد کی یہ دو قمسیں پیدا ہوگئی تھیں اس لیے ان کا ذکر ناگزیر تھا، باقی رہی یہ بات کہ خود قرآن نے رسم غلامی کے باب میں کیا حکم دیا؟ اور کس طرح اسے مٹانا چاہا؟ تو اس کا جواب سورۃ محمد کی تشریحات میں ملے گا۔