وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ ۖ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ
اور آدمیوں میں سے کوئی ایسا ہے کہ اللہ کی عبادت کنارہ پر کرتا ہے سو اگر اسے بھلائی پہنچتی ہے تو اس سے تسلی پاتا ہے اور جو اس پر آزمائش آتی ہے تو اپنے منہ پر پلٹ جاتا ہے ، دنیا اور آخرت گنوائی ، صریح نقصان یہی ہے ۔
یہاں آیت (١١) میں یہی حقیقت واضح کی ہے، فرمایا کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی بندگی تو کرتے ہیں مگر اس طرح کہ دل میں جماؤ نہیں ہے اور ایمان کی بنیاد یقین پر نہیں ہے۔ زندگی کے عارضی اور وقتی حالات پر ہے، اگر آرام و خوشحالی کی کوئی بات پیش آگئی تو مطمئن ہوئی مصیبت پیش آگئی تو اکھڑ گئے، ایسا آدمی نہ تو دنیا کی زندگی میں کامیاب ہوسکتا ہے نہ آخرت میں، کیونکہ بنائے کامیابی یقین اور امید ہے جو اس روح سے محروم رہا وہ دونوں جگہ نامراد ہوگا اور زندگی کی سب سے نمایاں نامرادی یہی ہے، پھر فرمایا زندگی کی ذارا سی مصیبت بھی انہیں اللہ کی طرف سے ہٹا کر دوسری چوکھٹوں پر گرا دیتی ہے جہاں نہ ان کے لیے نفع ہے نہ نقصان اور گمراہی میں سب سے زیادہ گہری گمراہی یہی ہے۔ آیت (١١) پر غور کرو، انسانی زندگی کی گمراہیوں کی کیسی سچی تصویر ہے؟ کتنے ہی آدمی ہیں جو بظاہر خدا پرستی کے دعوے میں کسی سے پیچھے نہیں ہوتے لیکن جہاں زندگی کے کسی الجھاؤ میں پڑے اور وہ حسب خواہش دور نہیں ہوا، معا انہوں نے خدا سے منہ موڑ لیا، اور گو زبان سے اقرار نہ کریں لیکن ان کی اعتقادی حالت ایسی ہی ہوجاتی ہے کہ اب حاجت براری کے لیے دوسرے آستانے ڈھونڈنے چاہیئں۔ چنانچہ جو چوکھٹ سامنے نظر آجائے گی فورا جھک جائیں گے اور اسے اپنی بندگی و نیاز کا کعبہ بنا لیں گے۔ قرآن کہتا ہے (ذلک ھو الضلال البعید) یہی گمراہی کی سب سے زیادہ گہری حالت ہے۔