سورة الأنبياء - آیت 96

حَتَّىٰ إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

یہاں تک کہ جب یاجوج وماجوج کھولے جائیں ، اور وہ ہر بلندی سے (پھیلتے) دوڑتے آئیں (ف ٣) ۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

فتح یاجوج و ماجوج : سورۃ کہف کے آخر میں یاجوج ماجوج کی تحقیق گزر چکی ہے۔ اس سورت کی آیت (٩٦) میں جس خروج کی خبر دی گئی ہے یہ ان کا آخری خروج تھا۔ یعنی منگولی تاتاریوں کا وہ خروج جو چھٹی صدی ہجری میں منگولیا کی بلندیوں سے امنڈا اور پھر آنا فانا تمام مشرق و مغرب پر چھا گیا۔ مشرق میں چین کی تمام مملکت اس نے مسخر کرلی، مغرب میں بحر اسود کے شمالی ساحل سے گزرتا ہوا ڈینیوب کی وادیوں تک پھیل گیا پھر ہنگری و روس پر قابض ہو کر جرمنی کی سرحد تک پہنچ گیا۔ پھر اسلامی ممالک کی طرف متوجہ ہوا اور چھ صدیوں کے اندر اسلامی تمدن نے جو کچھ تعمیر کیا تھا، جیجون سے لے کر دجلہ تک چشم زون میں پامال کردیا۔ (وکان وعدا مفعولا) تعبیر بیان کے بعض دقائق : غور کرو۔ یہاں صرف چند لفظوں کے اندر اس معاملہ کی خصوصیات کس طرح واضح کردی ہیں؟ یاجوج ماجوج کے اس ظہور کو خروج یا اسی طرح کے کسی دوسرے لفظ سے تعبیر نہیں کیا۔ بلکہ فتح کا لفظ استعمال کیا۔ حتی اذا فتحت یاجوج وماجوج۔ عربی میں جب فتح کا لفظ اشیا کے لیے کہا جاتا ہے تو اس کے معنی صرف کھلنے کے ہوتے ہیں۔ مثلا فتح الباب لیکن جب حیوانات کے لیے بولا جاتا ہے تو اس کے معنی صرف کھلنے ہی کے نہیں ہوتے بلکہ کھل کر اچانک نکل پڑنے کے ہوتے ہیں۔ مثلا ٹڈیوں کا دل کسی گوشہ سے نکل پڑتا ہے تو کہتے ہیں فتحت الجراد۔ پس مطلب یہ ہوا کہ یاجوج و ماجوج کسی گوشہ میں الگ تھلگ پڑے ہیں۔ ایک وقت آئے گا کہ اچانک نکل پڑیں گے اور اس طرح نکل پڑیں گے، جیسے مدتوں سے پانی بند پڑا ہو۔ بند ٹوٹ جائے اور ہر طرف سیلاب امنڈ آئے۔ اب دیکھو کس طرح اس ایک لفظ نے معاملہ کی پوری تاریخی نوعیت آشکارا کردی ہے؟ فتنہ تاتار : سورۃ کہف کی تشریحات میں پڑھ چکے ہو کہ ظہور اسلام سے پہلے منگولیا کا آخری قبائلی سیلاب وہ تھا جو چوتھی صدی مسیحی میں مغرب و شمال کی طرف پھیلنا شروع ہوا اور پھر یورپ کے مختلف قطعات میں منقسم ہو کر تھم گیا۔ اس کے بعد قبائل کے نئے سیلابوں کا خروج رک گیا تھا۔ التبہ جو قبائل وسط ایشیا اور سواحل یورال و خزر کے مختلف حصوں میں متوطن ہوگئے تھے ان کی نسل وہاں نشونما پاتی رہی۔ اسلامی فتوحات نے جب ان اطراف کا رخ کیا تو انہی قبائل کو وہاں آباد پایا۔ یہ بتدریج مسلمان ہوتے گئے۔ چنانچہ ترک، کرغز، خزر، قجر، تاجیک، چرکس، کرد، اوبزک، سلجوق وغیرہ سے مقصود یہی قبائل ہیں۔ یہ سب اگرچہ منگولیا کی پچھلی ہجرتوں کا بقایا تھے لیکن اب ان اک کوئی تعلق اپنے وطن قدیم سے نہیں رہا تھا۔ بلکہ ایک دوسرے کو اجنبیوں اور دشمنوں کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اس عرصہ میں منگولیا کا گوشہ بدستور صحرا نشین قبائل کے نئے گروہ پیدا کرتا رہا۔ اب یہ دنیا سے الگ تھلگ تھے، اطراف کے سرحدی قطعات پر لوٹ مار کے لیے نکل جاتے مگر اس سے آگے بڑھنے کی جرات نہ کرتے۔ بعض گروہ جنوب میں پنجاب تک اور مغرب میں بلخ و ماوراء لنہر تک بھی پہنچ گئے، اور ایک قبیلہ کی ترکتنازیاں تو بنارس تک پہنچ گئی تھیں۔ لیکن جیسے قبائلی سیلاب پہلے اٹھ چکے تھے ویسا کوئی سیلاب اب نہ اٹھ سکا۔ تمام قبائلی مواد منگولیا میں سمنٹا اور بندھا رہا۔ لیکن چھٹی صدی ہجری میں ایک طرف تو ان کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی دوسری طرف ایک غیر معمولی عزم و استعداد کا قائد بھی پیدا ہویا۔ یہ مشہور منگولی قائد چنگیز خاں تھا۔ اس نے تمام منتشرقبائل کو ایک رشتہ اطاعت میں منظم کردیا اور اس طرح ایک عظیم الشان عسکری قوت پیدا ہوگئی۔ اب یہ قتل و غارت کا ایک ایسامنظم سیلاب تھا جسے دنیا کی کوئی انسانی قوت روک نہیں سکتی تھی۔ چنگیز خان کے بیٹے اوکتائی خان کے عہد میں اس سیلاب کا بند ٹوٹا اور پھر اچانک اس طرح ہر طرف پھیل گیا۔ گویا دنیا اپنی بربادی کے لیے صرف اسی بند کے ٹوٹنے کی منتظر تھی۔ اسکے بعد فرمایا (من کل حدب ینسلون) حدب کے معنی کسی چیز کا اٹھا ہوا اور ابھرا ہوا ہونا ہے۔ چنانچہ زمین کے مرتفع حصوں کو حدبۃ الارض کہتے ہیں۔ ای کل اکمۃ من الارض مرتفعہ۔ نسل کے معنی تیزی کے ساتھ دوڑنے کے ہیں، بھیڑیے کے لپکنے کو نسلان الذئب کہیں گے۔ پس مطلب یہ ہوا کہ وہ زمین کے تمام مرتفع حصوں سے دوڑتے ہوئے آگریں گے۔ غور کرو، تاتاریوں کے حملے کی یہ کیسی مکمل تصویر ہے ؟ تمام مورخ متفق ہیں کہ ان کے خروج کی سب سے بڑی خصوصیت یہی تھی۔ ان کا ظہور منگولیا میں ہوا جو کرہ ارضی کی سطح مرتفع ہے۔ مشرق کی طرف بڑھے تو یہ بھی بلندی سے اترنا تھا۔ مغرب کی طرف چلے تو یہ بھی بلندی سے اترنا تھا۔ پھر شمال میں روش تک پہنچ گئے اور جنوب میں تمام مغربی ایشیا کے میدانوں پر چھا گئے۔ یہ بھی بلندیوں سے گرنا ہی تھ کیونکہ وسط ایشنا کی بلندیوں پر نمودار ہوئے اور پھر شمال و جنوب کے زیریں میدانوں پر ٹوٹ پڑے۔ پھر ان کے ظہور کے لیے ینسلون کا لفظ کس درجہ موزوں واقع ہوا ہے؟ ان کی شب و روز کی زندگی منگولیا کے بادرفتار گھوڑوں کی پیٹھ پر بسر ہوتی تھی اور سوسومیل تک بغیر دم لیے چلے جاتے تھے۔ جب ان کے جتھے اسلامی ملکوں پر گرے تو ان کی برق رفتاری کا یہ حال تھا کہ ایک شہر کی تباہی کی خبر دوسرے شہر تک پہنچنے نہیں پاتی تھی کہ وہ خود اس کے دروازے پر نمودار ہوجاتے تھے۔ علمائے عہد کی تصریحات : یہی وجہ ہے کہ اس عہد کے اکثر اصحاب نظر ان کی حالت دیکھتے ہیں بے اختیار پکار اٹھے کہ یاجوج و ماجوج کا موعود خروج یہی ہے۔ امام ذہبی نے تاریخ میں متعدد علماء کا یہ تاثر نقل کیا ہے اور حاظ علم الدین برزالی نے تاریخ دمشق میں اور مقریزی نے درر المئیہ میں تصریح کی ہے کہ اس عہد میں ایک کثیر جماعت اہل علم کی اس فتنہ کو فتح یاجوج و ماجوج قرارد یتی تھی۔ نیز حافظ سیوطی نے اپنے رسالہ فضائل بنی عباس میں مقریزی کے ایک رسالہ ماورد فی بنی امیہ وبنی العباس من الروایات والاقوال کا حوالہ دیا ہے اور اس سے یہی قول نقل کیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے جد مجد الدین ابن تیمیہ صاحب منتقی کہا کرتے تھے۔ اگر یہ خود یاجوج ماجوج نہیں ہیں تو ظاہر ہونے والے یاجوج ماجوج ایسے ہی ہوں گے صاحب تاریخ گزیدہ نے بھی دبے لفظوں میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔ فتح سے مقصود کسر سد نہیں ہے : ہمارے مفسروں نے چونکہ سد ذوالقرنین کی تعمیر کا مطلب یہ سمجھ رکھا تھا کہ جس طرح قیدیوں کو دیوار چن کر بند کردیتے ہیں اسی طرح ذوالقرنین نے یاجوج و ماجوج کو بند کردیا ہے اس لیے یہاں فتحت کا لفظ دیکھ کر جھٹ انہوں نے یہ مطلب ٹھہرا دیا کہ جب دیوار کھل جائے گی اور یاجوج ماجوج آزاد ہو کر نکل پڑیں گے، حالانکہ نہ تو سد سے مقصود قید خانہ کی دیواریں ہیں اور نہ یاجوج ماجوج سے مقصود بھیڑوں کا کوئی گلہ ہے جسے باڑ کھینچ کر بند کردیا گیا ہو۔ دنیا میں اس طرح کوئی کسی قوم کو دیواروں میں چن نہیں دے سکتا، ذوالقرنین کے زمانہ میں یاجوج ماجوج کا حملہ ایک خاص راہ سے ہوتا تھا۔ دوسری راہیں ان پر نہیں کھلی تھیں اس لیے اس نے سد تعمیر کر کے اسے بند کردیا اور صدیوں تک کے لیے ملک محفوظ ہوگیا، اسی طرح چینیوں نے بارہ سو میل لمبی دیوار تعمیر کر کے شمال اور مغرب کی ساری سرحد بند کردی۔ لیکن اب یہ دونوں رکاوٹیں بیکار ہوگئی تھیں کیونکہ چین کے لیے جنوب کی راہ اور مغربی ایشیا کے لیے خراسان کی راہ کھل گئی تھی۔ والقصہ بطولھا۔ فتح یاجوج اور تاریخ اسلام : اس واقعہ نے تاریخ اسلام کو دو بڑی قسموں میں منقسم کردیا ہے، قبل از فتنہ تاتار اور بعد از فتنہ تاتار، پہلے عہد کی تمام دینی، تمدنی، ذہنی اور عملی خصوصیات دوسرے عہد میں یک قلم معدوم ہوگئیں۔ پہلا عہد صڑف عروج ہی کا عہد نہ تھا بلکہ تنزل کا بھی تھا۔ تاہم مسلمانوں کے فکر و عمل کی جو معنوی روح اوائل میں پیدا ہوگئی تھی وہ کسی نہ کسی شکل میں کم و بیش قائم تھی، لیکن اس فتنہ نے پچھلا دور بالکل ختم کردیا اور عالم اسلامی کی خون آلود سرزمین سے جو نیا دور بنا، وہ ہر اعتبار سے ایک مختلف اور متضاد دور تھا اور سر تا سر عہد تنزل کی پیداوار، آج مسلمانوں کے فکر وعمل کا جو ڈھانچا نظر آرہا ہے۔ یہ اسی دور کی پیدوار ہے۔ اس انقلاب حال کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ عربی خلافت کا بکلی خاتمہ ہوگیا۔ عربی خلافت اس سے پہلے بھی خلافت نہیں رہی تھی، خلافت کا محض سایہ تھی۔ تاہم سایہ باقی تھا اور وہ اصلیت کی یاد تازہ کرتا رہتا تھا۔ لیکن سقوط بغداد سے یہ سایہ بھی معدوم ہوگیا۔ حضرت زینب بنت جحش : بخاری کی حدیث زینب بنت جحش میں اس صورت حال کی طرف صاف صاف اشارہ موجود ہے۔ استیقظ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محمرا وجھہہ، یقول لا الہ الا اللہ ویل للعرب من شر قد اقترب، فتح الیوم من ردم یاجوج وماجوج مثل ھذہ (وعقد سفیان تسعین او مائۃ) قیل انھلک وفینا الصالحون؟ قال نعم اذا کثر الخبث۔ یعنی آنحضرت ایک دن سو کر اٹھے تو ان کا چہرہ مبارک شدت تاثر سے سرخ ہوریہا تھا اور فرما رہے تھے لا الہ الا اللہ ! اس شر سے جو قریب آگیا۔ عرب کے لیے افسوس ! آج یاجوج ماجوج کی روک کھل گئی، پھر انگلیوں سے حلقہ بنا کر بتلایا کہ ابھی صرف اتنی راہ کھلی ہے۔ یہ حلقہ روپیہ کے برابر یا اس سے کچھ چھوٹا تھا۔ آخری راوی کو اس بارے میں شبہ پڑگیا، بہرحال مطلب یہ تھا کہ ابھی صرف رخنہ پڑا ہے، پوری راہ نہیں کھلی۔ اس پر عرض کیا گیا کیا ہم ہلاکت میں پڑجائیں گے حالانکہ ہم میں صالح انسان بھی ہوں گے؟ فرمایا جب گندی بڑھ جائے گی۔ اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں : اولا : آنحضرت کے زمانے میں یعنی ساتویں صدی مسیحی میں یاجوج و ماجوج کی روک کھلنا شروع ہوگئی تھی لیکن اتنی نہیں کھلی تھی کہ قدم باہر بڑھا سکیں، یہ حقیقت خواب میں اس طرح دکھائی گئی جیسے ایک دیوار ہے اور اس میں ذرا سا سوراخ بن گیا ہے۔ چنانچہ تاریخ اس کی ہوبہو تصدیق کرتی ہے۔ ٹھیک یہی زمانہ ہے جب منگولی قبائل نے اس راہ کے علاوہ جسے ذوالقرنین بند کرچکا تھا، ایک دوسری راہ کا سراغ پالیا، یعنی بحر خزر اور بحر اسود کی درمیان راہ کی جگہ بحیرہ یورال اور بحر خزر کا درمیانی راستہ۔ چھٹی صدی میں تاتاریوں کے بعض قبائل اس طرف بڑھ آئے اور دریائے جیحوں کی وادیوں میں آباد ہوئے۔ ثانیا یاجوج ماجوج کے ظہور میں عرب کے لیے ہلاکت تھی، کیونکہ ویل للعرب فرمایا للسملمین نہیں فرمایا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو نسل عربی اقتدار و عروج کے انقراض کا باعث ہوئی وہ یہی منگولی نسل ہے اور اس لیے یقینا یاجوج ماجوج سے مقصود یہی نہیں تھی۔ عربی اقتدار کی ہلاکت کی ابتدا بھی اسی نسل کی مختلف شاخوں سے ہوئی۔ یعنی ترکوں اور سلجوقیوں سے اور انتہا بھی اسی کے نئے ظہور سے ہوئی۔ یعنی منگولی تاتاریوں سے۔ تاریخ کی ایک ناقابل فراموش عبرت : اس باب میں بہت سے امور تفصیل طلب ہیں لیکن یہاں مزید اطناب کا موقع نہیں، البتہ تذکیر و عبرت کے لیے ایک تاریخی حقیقت یاد رکھنی چاہیے۔ اسلام کا مورخ کبھی اس وقعہ کے ماتم سے فارغ نہیں ہوسکتا کہ تاتاریوں کی ابتدائی تاخت اور آخری تاخت دونوں کا باعث خود مسلمانوں کی فرقہ بندی اور اس کی جاہلی عصبیت ہوئی۔ یعنی بربادی کا پہلا دروازہ حنیفوں اور شافعیوں کے باہمی جدال سے کھلا اور بربادی کی آخری تکمیل یعنی بغداد کا قتل عام سنیوں اور شیعوں کے اختلاف کا نتیجہ تھا۔ چنگیز خاں نے وسط ایشیا کا بالائی علاقہ خوارزم تک (یعنی خیوا تک) فتح کرلیا تھا لیکن اس سے آگے قدم نہیں بڑھا سکا تھا۔ بعد کو جب اس کے پوتوں میں سلطنت تقسیم ہوئی تو وسط ایشیا اور اس کے ملحقات ہلاکو خان کے زیر حکومت آئے۔ لیکن اسے بھی آگے بڑھنے کی جرات نہیں ہوئی کیونکہ اسلامی مملکتوں کی کوشش صد سالہ عظمت کا رعب ابھی تک دلوں سے محو نہیں ہوا تھا۔ مگر اس اثنا میں اچانک ایک واقعہ ایسا پیش آگیا جس نے خودبخود ہلاکو کے آگے فتح و تسخیر کی راہیں کھول دیں۔ خراسان میں حنفیوں اور شافعیوں میں باہمی جنگ و جدال کا بازار گرم تھا۔ طوس کے حنفیوں نے شافعیوں کی ضد میں آکر ہلاکو کو حملہ کی دعوت دی اور شہر کے دروازے کھول دیے، پھر جب تاتاریوں کی تلوار چمک گئی تو اس نے نہ حنفیوں کو چھوڑا نہ شافعیوں کو۔ دونوں کا خاتمہ کردیا۔ خراسان کی تسخیر نے بغداد کی شاہراہ کھول دی تھی۔ پھر بھی ہلاکو اس کی جرات نہ کرسکا کہ عباسی دار الخلافہ پر حملہ کرے لیکن اب پھر خود مسلمانوں کے باہمی قتال نے اسے بلاوا بھیجا۔ بغداد سنیوں اور شیعوں کے باہمی پیکار کا میدان جنگ بن چکا تھا۔ خلیفہ مستعصم کا وزیر ابن علقمی شیعہ تھا اور سنیوں کے ہاتھوں اذیتیں برداشت کرچکا تھا، اس نے خواجہ نصیر الدین طوسی کے ذریعہ سے (کہ ہلاکو کا وزیر اور معتمد تھا) ہلاکو کو بغداد آنے کی ترغیب دی اور اس طرح تاریخ اسلام کی سب سے بڑی بربادی اپنی آخرت تکمیل تک پہنچ گئی۔ یہی معنی ہیں سورۃ انعام کی اس آیت کے جس میں جماعتی زندگی کے عذابوں میں سے ایک عذاب یہ بتلایا ہے کہ کسی ایک جماعت کا مختلف جماعتوں میں متشیع اور متحزب ہوجانا اور پھر ہر گروہ کا دوسرے گروہ کو اپنی شدت کا مزہ چکھانا (قل ھو القادر علی ان یبعث علیکم عذاب من فوقکم او من تحت ارجلکم او یلبسکم شیعا ویذیق بعضم باس بعض) تاریخی حیثیت سے یہ واقعہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ چنگیز خاں کو خوارزم پر حملہ کرنے کی ترغیب خود خلیفہ الناصر الدین اللہ عباسی نے دی تھی، کیونکہ سلجوقیوں کے بعد خوارزم شاہیوں کا اقتدار قائم ہویا تھا، خلیفہ بغداد اس اقتدار کی وجہ سے سخت ضیق میں تھا۔ چنگیز خان کا نام تیموجن تھا۔ ٦٠١ ھ مطابق ١٢٠٦ ء میں اس نے چنگیز خاں کا شہنشاہی لقب اختیار کیا، ٦١٤ ھ مطابق ١٢١٩ ء میں خوارزم فتح کرلیا۔ سال وفات ٦٢٢ ھ مطابق ٢٢٧ ء ہے۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اوکتائی خان جانشین ہوا۔ اوکتائی کے بعد منکو، منکو کے بعد قبلائی، قبلائی کے بھائی ہلاکو کے حصہ میں وسط ایشیا کی فرمانروائی آئی۔ اسی نے ٦٥٦ ھ مطابق ١٢٥٨ ء میں بغداد پر حملہ کیا اور عربی خلافت کا آخری نقش قدم بھی مٹ گیا۔