سورة الأنبياء - آیت 83

وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور ایوب کو یاد کر جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے دکھ پہنچا ہے ، اور تو سب مہربانوں سے زیادہ مہربان (ف ٢) ۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٨٣) میں اسی طرح اشارہ کیا گیا ہے۔ سرگزشت کا خلاصہ یہ ہے کہ عوض کے ملک میں ایوب ایک کامل اور راست باز انسان تھا۔ خدا نے اسے بڑا خاندان اور بڑی دولت دے رکھی تھی۔ اس کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ سات ہزار بھیڑیں، تین ہزار اونٹ، ایک ہزار بیل، اور پانچ سو بار برداری کے گدھے تھے۔ اس کے نوکر چاکر بے شمار تھے، اور اہل مشرق میں اس درجہ مال دار کوئی نہ تھا۔ وہ اس دولت و شوکت کے لیے خداوند کا شکر گزار تھا اور ہمیشہ بدی سے دور رہتا تھا۔ لیکن پھر زندگی کی ساری مصیبتیں ان پر آپڑیں۔ ان کے مویشی لوٹ لیے گئے، نوکر چاکر قتل ہوگئے، اولاد مرگئی، جاہ و حشم نابود ہوگیا، اور زندگی کی خوشحالیوں میں سے کوئی چیز بھی باقی نہ رہی، پھر بربادیوں کے یہ تمام زخم ایک ایک کر کے نہیں لگے کہ سنبھلنے اور جھیلنے کی مہلت ملی ہو، بیک وقت لگے اور اچانک دنیا کچھ سے کچھ ہوگئی۔ لیکن عین اس حالت میں بھی حضرت ایوب کی زبان سے کلمہ صبر و شکر کے سوا اور کچھ نہیں نکلا۔ وہ سجدے میں گر پڑا، اور کہا میں اپنی ماں کے پیٹ سے برہنہ پیدا ہوا تھا اور برہنہ ہی دنیا سے جاؤں گا۔ خداوند نے مجھے دیا تھا اور خدا وند نے لے لیا۔ اس کے نام کے لیے ساری پاکیاں اور مبارکیاں ہوں۔ (ایوب : ٢٢: ١) سب کچھ جاچکا تھا۔ صرف جسم کی تندرستی باقی رہ گئی تھی۔ اب اس نے بھی جاب دے دیا، اور ایوب کے تلوے سے لے کر سر کی چاندی تک سارے جسم میں جلتے ہوئے پھوڑے نکل آئے۔ وہ ایک ٹھیکرا لے کر اپنا جسم کھجاتا اور راکھ پر بیٹھا رہتا۔ لیکن اس پر بھی ان کی زبان ایک لمحۃ کے شکوہ و شکایت سے آلودہ نہ ہوئی۔ اب درد و مصیبت کی یہ حالت برابر بڑھتی ہی جاتی ہے۔ لیکن جوں جوں بڑھتی جاتی ہے روح یقین دل کا صبر اور زبان کا زمزمہ شکر بھی بڑھتا جاتا ہے۔ چنانچہ تما صحیفہ ایوب انہی دلنشین مواعظ کا مجموعہ ہے جو ان کے درد و غم کی آہوں اور کرب و اذیت کی صداؤں کے اندر نمایاں ہوئے۔ ان کی ہر آہ حمد و ثنا کا نغمہ تھی اور ہر پکار صبر و شکر کی تلقین۔ اسلوب بیان یہ ہے کہ تین دوست مصیبت کا حل سن کر آتے ہیں اور اللہ کے کاموں اور حکمتوں پر ان سے روکد کرتے ہیں۔ پھر اللہ کی وحی انہیں مخاطب کرتی ہے اور ان کی آزمائش کا دور ختم ہوجاتا ہے اور خداوند نے ایوب کی حالت بدل دی، اسے پہلے کی سنبت دو چند دولت عنایت کی۔ اس کے تمام عزیزوں کو اس کے گرد جمع کردیا۔ اسے آخری عمر میں پہلے کی طرح اولاد ملی وہ ایک سو چالیس برس تک جیا اور پانی نسل کی چار نشتیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ (١٠: ٤٢) اس بات کے اظہار کے لیے یہ حضرت ایوب کے لیے ایک آزمائش تھی پیرایہ بیان یہ اختیار کیا گیا ہے کہ شطیان نے کہا ایوب کی خدا پرستی و راست بازی اس لیے ہوئی کہ خدا نے اسے ہر طرح کی خوشحالیاں دے رکھی ہیں۔ اگر وہ ان سے محروم ہوجاتے تو پھر کبھی خدا کا شکر گزار نہ ہو، لیکن وہ خوشحالیوں سے محروم ہوگئے، پھر بھی ان کا ایمان و یقین گھٹنے کی جگہ اور زیادہ بڑھ گیا۔ قرآن نے صبر و شکر کی یہ پوری داستان صرف چند جملوں میں بیان کردی ہے اور اس کا ایجاز بلاغت اتنا ہی موثر ہے جتنا صحیفہ ایوب کے پچاس صفحوں کا شاعرانہ اطناب ہے۔ آیت (٨١) سے (٨٤) پر مکرر نظر ڈالو (وایوب اذا نادی ربہ انہ مسنی الضر وانت ارحم الراحیم۔ فاستجبنا لہ فکشفنا ما بہ من ضر واتیناہ اھلہ و مثلھم معھم رحمۃ من عندنا وذکری للعابدین) انی مسنی الضر میں ان کے درد و مصیبت کی ساری داستان آگئی۔ کوئی گوشہ بھی نہیں چھوٹا، ساتھ ہی اسلوب خطاب یہ ہوا کہ میں دکھ میں پڑگیا ہوں، یہ نہ ہوا کہ تو نے مجھے دکھ میں ڈال دیا ہے۔ کیونکہ وہ تو کسی کو بھی دکھ میں نہیں ڈالتا۔ اس نے جو کچھ بھی بخشا ہے سرتاسر سکھ اور راحت ہی ہے۔ جو حالت بھی ہمارے لیے دکھ ہوجاتی ہے خود ہماری ہی صورت حال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے انبیائے کرام کے مخاطبات میں ہر جگہ یہ حقیقت نمایاں ہوئی۔ حضرت آدم نے کہا (ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین) خدایا ! ظلم ہم نے کیا ہے اور مغفرت کی طلبگاری تجھ سے ہے اسی طرح حضرت ابراہیم کی موعظت سورۃ شعراء میں آئے گی : (وذا مرضت فھو یشفین) جب میں بیمار پڑجاتا ہوں تو وہی ہے جو مجھے شفا دیتا ہے۔ یعنی بیماری میں پڑنا میری حالت ہوئی، شفا دینا اس کا کام ہوا۔ کیونکہ اس کے پاس جو کچھ ہے شفا ہی شفا ہے۔ اس کی رحمت نے دار الشفا بنایا ہے۔ بیماریاں بانٹنے کا کوئی گھر نہیں بنایا ہے۔ وما اھسن قول الشاعر العارف : کفر ہم نسبت بہ خالق حکمت ست۔۔۔۔ چوں بہ ما نسبت کنی، کفر آفت ست ! حضرت ایوب کی دعا اور شرح انی مسنی الضر : اور یہی وجہ ہے کہ فرمایا : تعز من تشاء وتذل من تشاء بیدک الخیر۔ (٢٦: ٣) تو جسے چاہے عزت دے دے، جسے چاہے ذلیل کردے ہر طرح کا خیر تیرے ہی ہاتھ ہے، یعنی جسے عزت ملی وہ بھی خیر کی بات ہوئی، جسے ذلت ملی وہ بھی خیر کی بات ہوئی۔ حالانکہ جسے ذلت ملی اس کے لیے تو شر ہی کی بات ہوئی، خیر کی بات نہیں ہوئی۔ لیکن قرآن کہتا ہے اس کے لیے اور اس کی اضافت سے شر کی بات ہوئی۔ فی الحقیقت شر کی بات نہ ہوئی۔ کیونکہ خدا جو کچھ کرتا ہے خیر ہی خیر ہے۔ شر کا یہاں گزر ہی نہیں۔ یہ ہم ہیں ور ہماری حالت ہے جو شر کا جامہ پہن لیا کرتی ہے : ہر چہ ہست از قامت ناساز و بے اندام ماست۔۔۔ ورنہ تشریف تو بر بالائے کس دشوار نیست !ً مسلم کی حدیث ابو ذر میں یہی حقیقت واضح کی گئی ہے : یا عبادی انما ھی اعمالکم، احصیھا لکم ثم اوفیکم ایاھا فمن وجد خیرا فلیحمد اللہ، ومن وجد غیر ذلک فلا یلومن الا نفسہ۔ اے میرے بندو ! یہ تمہارے اعمال ہی ہیں جنہیں میں تمہارے لیے ضبط کرتا ہوں اور پھر ان کے نتائج پورے پورے لوٹا دیتا ہوں۔ پس تم میں سے جو کوئی خیر پائے تو اللہ کی ستائش کرے اور جس کسی کو کوئی دوسری حالت پیش آجائے تو اور کسی کا شکوہ نہ کرے۔ خود اپنے نفس کو ملامت کرے۔ و انت ارحم الراحمین : اس کے بعد کہا (وانت ارحم الرحمین) اور غور کرو اس ایک جملہ میں سفر ایوب کے کتنے صٖفحے آگئے؟ اس میں حمد و ثنا بھی آگئی، صبر و شکر کا دامن بھی نہیں چھوٹا، طلب والحاح کا ہاتھ بھی دراز ہوگیا، اور عجز و نیاز کی پیشانی بھی بندگی و تذلل کی زمین پر پڑگئی، خدایا ! میں دکھی ہوں اور تجھ سے بڑھ کر کون ہے جو رحم کرنے والا ہو؟ طوبی لعبد تکون مولاہ ! اگر ایک فقیر بادشاہ سے ہے : میں محتاج ہوں اور تجھ سے بڑھ کر کوئی سخی نہیں، تو پھر اس کے بعد اور کیا رہ گیا جو اس نے نہیں کہا؟ اور کیوں اس سے زیادہ اس کی زبان سے کچھ نکلے؟ بلاشبہ یہ عرض حال ہے، طلب و سوال نہیں لیکن !!! در حضرت کریم تقاضا چہ حاجت است؟؟؟